بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دس لاکھ روپے لے کر بیس لاکھ روپے ساڑھے تین سال میں ادا کرنے کا حکم


سوال

میں نے ایک پلاٹ چھ کروڑ کا  خریدا ہے لیکن ابھی فی الحال میرے پاس چھ کروڑ کی رقم موجود نہیں ہے لیکن میں اپنے رشتہ داروں سے روپیہ اس طور پر لیتا ہوں کہ مثلا میں آج ایک رشتہ دار سے دس لاکھ روپیہ لیتا ہوں اور میں اس کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہوں کہ ساڑھے تین سال بعد میں آپ کو بیس لاکھ روپے ادا کروں گا، کیا یہ معاملہ شرعا درست ہے؟ اگر یہ درست نہیں تو کیا فائل کا معاملہ درست ہوگا، کہ دس لاکھ کی ایک فلیٹ کی فائل میں اس سے فروخت کروں اور میں ان سے واپس اسی وقت اٹھارہ لاکھ میں خریدوں اور میں ان کو یہ اٹھارہ لاکھ روپے ساڑھے تین سال میں ادا کروں، تو کیا یہ درست ہوگا؟

وضاحت: پلاٹ میں رقم کی ادائیگی کے لئے جن سے رقم وصول کررہا ہے ان کا حصہ متعین نہیں اور فلیٹ کا وجود بھی نہیں، خالی زمین ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کا پلاٹ خریدنے کے بعد رقم کی ادائیگی کے لئے رشتہ داروں اور متعلقین سے دس لاکھ روپے لے کر ساڑھے تین سال بعد بیس لاکھ روپے ادا کرنے کا معاہدہ کرنا شرعاً درست نہیں کیونکہ یہ سودی معاملہ ہے اور سودی معاملہ شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح دوسری صورت جو ذکر کی گئی ہے کہ فلیٹ کی فائل دس لاکھ روپے میں فروخت کرکے اسی وقت اٹھارہ لاکھ روپے میں واپس خریدنا اور یہ اٹھارہ لاکھ روپے کی رقم ساڑھے تین سال کی مدت میں ادا کرنے کا وقت مقرر کرنا، یہ صورت بھی سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام۔"

(کتاب البیوع، باب المرابحۃ: ۵/ ۱۶۶، ط: سعید)

 شرح المجلۃ لسلیم رستم باز:

"یلزم أن یکون المبیع معلومًا عند المشتري)؛ لأنّ بیع المجھول فاسد۔"

(المادۃ : ۲۰۰ ، الکتاب الأوّل : في البیوع ، الباب الثاني : في بیان المسائل المتعلّقۃ بالمبیع:۱/ ۷۸، ط: دار الکتب العلمیۃ)

شرح المجلّۃ لسلیم رستم باز : 

"یلزم أن یکون المبیع مقدور التسلیم) فبیع غیر مقدور التسلیم باطل … قال القردي عن جواھر الفتاویٰ: باع عقارًا ملکہ لکن في ید آخر الفتوی علی أنّہ لا یصح عملاً بقول محمد ؛ لأنّہ لا یقدر علی تسلیمہ اھـ۔"

(المادۃ : ۱۹۸ ، الکتاب الأوّل ؛ في البیوع ، الباب الثاني : في بیان المسائل المتعلّقۃ بالمبیع:۱/ ۷۸،  ط: دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100450

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں