بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دس دن میں تراویح مکمل کرنا/ سامع کا قرآن میں دیکھ کر لقمہ دینا/ اور روزے کا فدیہ


سوال

1، 2۔ میں ہر سال رمضان المبارک میں دس دن کے اندر قرآن مجید کو تراویح کی نماز میں سناتا ہوں، اور عشاء کی نماز (فرض نماز اور وتر) اس رہائش گاہ میں پڑھاتا ہوں، اب پوچھنا یہ ہے کہ میرا یہ دس دن کے اندر قرآن مجید کو تراویح میں سنانا اور عشاء کی نماز وہیں کمرے میں پڑھانا کیسا ہے؟ اور اس میں صحیح طریقہ و سنت کیا ہے؟ کہ کتنے دن میں قرآن مجید کا ختم ہو،؟ اور چوں کہ میں کسی مدرسے کا اہتمام بھی سنبھالتا ہوں اسی لیے پوچھنا ہے کہ میرا یہ طریقہ (دس دن میں قرآن مکمل کرنا) درست ہے؟ اور یہ عمل تقریباً چھ سال سے جاری ہے۔

3۔ میرا سامع غیر مقلد (اہلِ حدیث) ہے، اور وہ نماز تراویح کے دوران قرآن مجید میں دیکھ کر مجھے کبھی لقمہ دے دیتاہے، اور جب رکوع میں جاتے ہیں تو وہ قرآن مجید ریل پر رکھ لیتا ہے، پھر سجدے سے اٹھ کر قرآن مجید اٹھا لیتا ہے، تو اس کا یہ عمل کیسا ہے؟ اور ہماری نماز میں اس کی وجہ سے کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟

4۔ ایک شخص کسی عذر مثلاً بیماری یا بہت بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس کا فدیہ کتنا ہوگا اور کس کو دینا ہوگا؟

جواب

1۔واضح رہے کہ مسجد کے قریب ہوتے ہوئے بلا کسی عذر  فرض نماز کی جماعت کا دوسری جگہ اہتمام کرنا مکروہ ہے، اور مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے سے  مسجد کی فضیلت اور ثواب سے محرومی ہوگی، نیز  مسجد میں آنے کے بجائے بغیر کسی شرعی عذر کے مردوں کے  گھروں میں نماز ادا کرنے پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد قریب ہے تو سائل کے لیے گھر میں عشاء کی نماز کی جماعت کرنا مكروه  ہے۔

2۔ رمضان المبارک میں تراویح میں ایک قرآن مجید ختم کرنا مستقل سنت ہے، جیسے سہولت ہو اس حساب سے قرآن مجید کو مکمل کرسکتے ہیں، اور رمضان المبارک کے پورے مہینے میں تراویح پڑھنا ایک الگ مستقل سنت ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے دس دنوں کے اندر تراویح میں  قرآن کریم سنانے میں کوئی قباحت نہیں ،بشرطیکہ قرآن كريم كے حروف  کی ادائیگی ان كے مخارج اور صفات  کی رعايت  رکھتے ہوئے کی جائے۔ 

3۔ واضح رہے کہ احناف کے نزدیک نماز میں قرآنِ مجید دیکھ  کر پڑھنا یا دیکھ کر سماعت کرنا جائز نہیں، تراویح میں دیکھ  کر قرآنِ مجید پڑھنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اسی طرح دیکھ  کر  سماعت کرنا شرعاً درست نہیں ہے، اس سےنمازفاسد ہوجائے گی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر اس حالت میں سامع نے لقمہ دیا  اور امام نے قبول کرلیا تو امام و مقتدی سب کی نماز فاسد ہو جائے گی۔

4۔ واضح رہے کہ جو شخص بڑھاپے یا مستقل بیمار  ہونے کی وجہ سے روزے رکھنے پر قادر نہ ہو اور نہ ہی مستقبل میں  صحت ملنے  کی کوئی امید ہو تو ایسے شخص کو ہر روزے کے بدلے میں پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت بطورِ فدیہ فقراء اور مساکین کو دینی ہوگی، لیکن  اگر فدیہ ادا کرنے کےبعد صحت یاب ہو گیا تو دوبارہ روزے قضاکرنا ضروری ہوگا، اور جو رقم فدیے میں دی وہ صدقہ شمار ہوگی،  عام بیماری جس میں صحت یابی کی امید ہو اس میں روزے کا فدیہ ادا کرنا درست نہیں ہے،بلکہ صحت یاب ہونے کےبعد ان روزوں کی قضا  کرنا لازم ہے ۔

مشکات شریف میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر ‌بحطب ‌فيحطب ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها ثم آمر رجلا فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال. وفي رواية: لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقا سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء." رواه البخاري ولمسلم نحوه."

(كتاب الصلاة، باب الجماعة و فضلها، الفصل الأول، ج: 1، ص: 332، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والختم) مرة سنة ومرتين فضيلة وثلاثا أفضل. (ولا يترك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الاختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لا يثقل عليهم، وأقره المصنف وغيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثا قصارا أو آية طويلة في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآية أو آيتين لا يكره، ومن لم يكن عالما بأهل زمانه فهو جاهل."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص: 47، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"(و) يفسدها... (‌وقراءته ‌من ‌مصحف) أي ما فيه قرآن (مطلقا) لأنه تعلم إلا إذا كان حافظا لما قرأه وقرأ بلا حمل.

وفي حاشيته: (قوله لأنه تعلم) ذكروا لأبي حنيفة في علة الفساد وجهين. أحدهما: أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير. والثاني أنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 624، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"(ومنها المرض) ‌المريض ‌إذا ‌خاف ‌على ‌نفسه ‌التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتدادها فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق كذا في فتح القدير. والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض هكذا في التبيين ولو كان له نوبة الحمى فأكل قبل أن تظهر الحمى لا بأس به كذا في فتح القدير. ومن كان له حمى غب فلما كان اليوم المعتاد أفطر على توهم أن الحمى تعاوده وتضعفه فأخلفت الحمى تلزمه الكفارة كذا في الخلاصة... (ومنها: كبر السن) فالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية. والعجوز مثله كذا في السراج الوهاج. وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت كذا في البحر الرائق. ثم إن شاء أعطى الفدية في أول رمضان بمرة، وإن شاء أخرها إلى آخره كذا في النهر الفائق. ولو قدر على الصيام بعد ما فدى بطل حكم الفداء الذي فداه حتى يجب عليه الصوم هكذا في النهاية."

(كتاب الصوم، الباب الخامس في الأعذار اللتي تبيح الإفطار، ج: 1، ص: 207، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309101412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں