بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دریائے سندھ کے کنارے اپنی ملکیتی زمینیوں میں ریت سے سونا نکالنے کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں میں لوگ دریائے سندھ کے ساتھ باہر خشکی والے  اپنے ہی شخصی ملکیتی زمینوں میں ریت کو مخصوص مشینوں کے ذریعے چھان کر سونا نکالتے ہیں، یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے، اس لیے لوگوں نے اپنا ذریعہ معاش یہی بنایا ہے، جب کہ حکومت کی جانب سے مذکورہ وسیلہ کو ذریعہ معاش بنانا بغیر مخصوص لائیسنس کے اور بغیر ادائیگی ٹیکس کے غیر قانونی ہے،کیوں کہ پاکستان میں کسی بھی معدنیات کو نکالنا خاص قسم کی پرمٹ (لائیسنس) اور مخصوص ٹیکس کی ادائیگی کےساتھ مشروط رکھا گیا ہے، چاہے وہ اپنی ملکیتی زمین ہی کیوں نہ ہو،  اس لیے زمین مالکان محکمہ معدنیات کے اہلکاروں سے چھپ کر سونا نکالتے ہیں، جب کہ محکمہ معدنیات کے اہلکاروں کے چھاپے کے دوران پکڑے جانے کی صورت میں کچھ پیسے دے کر جان چھڑا لیتے ہیں۔

اس صورتِ حال میں سوال یہ ہے کہ  کیا اس طرح چھپ کر اپنی ہی ملکیتی زمین میں سونا نکالنا جائز ہے؟ مذکورہ بالا مسئلہ میں محمکہ معدنیات کے اہلکاروں کے چھاپے کے دوران  پکڑے جانے کی صورت میں جان چھڑانے کے لیے جو رقم دی جاتی ہے کیا وہ رشوت کے زمرے میں آئےگا یانہیں؟ نیز مذکورہ مسئلہ میں حکومتی ٹیکس کی شرعی حیثیت کیاہے؟  برائے کرم شریعت کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہےکہ اگرکسی کی مملوکہ زمین میں سےسونا،چاندی،اوردیگرمعدنیات میں سےکچھ نکلے،تو زمین کامالک ہی اُس کامالک ہوگا، لہذا صورتِ مسئولہ میں اپنے ملکیتی زمین سے سونا نکالنا جائز ہے، البتہ مملوکہ زمین سے سونا وغیرہ بر آمد ہو نے کی صورت میں  اس میں خمس (پانچواں حصہ) بیت المال میں جمع کرنا لازم ہوگا، اور بیت المال نہ ہونے کی صورت میں فقراء اور مساکین   کو دیا جائے گا، اور یہ واجد  (دفینہ برآمد کرنے والا)   خود بھی تقسیم کرسکتا ہے۔

رشوت لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم ﷺ نے لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں، اس لیے حتی الامکان رشوت دینے سے بچنا بھی واجب ہے،تاہم  اپنا جائز  اور ثابت حق اگر رشوت دیے بغیر حاصل کرناکسی صورت ممکن نہ ہوتو مجبوراً رشوت دے کر اپنے حق کی وصولی کی صورت میں امید ہے کہ رشوت دینے والا گناہ سے بچ جائے گا اور رشوت لینے والا سخت گناہ گار ہے۔

کسی بھی ملک وملت کے انتظامی امور چلانے اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے،چنانچہ ان وسائل کو پورا کرنے کے لیےنبی کریمﷺ،خلفاء راشدین اور ان کے بعد کے دور میں بیت المال کا ایک مستقل ومربوط نظام قائم تھااور اس میں مختلف قسم کے اموال مثلاً:خمس غنائم ،مال فئی،خراج،جزیہ وغیرہ جمع کیے جاتے تھےاور ان ذرائع آمدن کے مقابلے میں حکومتی اخراجات اور ریاست کی ذمہ داریاں اس وقت نسبتاًمحدود تھیں،اس لیے یہ ذرائع آمدن اخراجات کے لیے کافی تھےاور لوگوں پر ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی،لیکن آج کےدور میں جبکہ مذکورہ اسباب اور وسائل تقریباً ناپید ہوچکے ہیں اور اخراجات وذمہ داریاں،بڑھ گئی ہیں،اس لیے ان ضروریات واخراجات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس کا نظام قائم کیا گیا ،کیوں کہ حکومت اگر ٹیکس نہ لے تو ملک کا فلاحی نظام خطرہ میں پڑجائے گا،اس لیے امور مملکت چلانے کی خاطر لوگوں سے ٹیکس لینے کی گنجائش ہے ،تاہم ا س میں ضروری ہےکہ ٹیکس کی شرح ظالمانہ نہ ہواورکسی پر ظلم وزیادتی نہ ہو اور ناجائز طورپر ٹیکس نہ لیتی ہو، لیکن اگر   ٹیکس کی شرح ظالمانہ ہو، تو اس  سے بچنے کےلیے کوئی متبادل راستہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"اعلم أن المستخرج من المعادن أنواع ثلاثة منها جامد يذوب وينطبع كالذهب والفضة والحديد والرصاص والنحاس، ومنها جامد لا يذوب بالذوب كالجص والنورة والكحل والزرنيخ، ومنها مائع لا يجمد كالماء والزئبق والنفط. فأما الجامد الذي يذوب بالذوب ففيه الخمس عندنا."

(كتاب الزكاة، باب المعادن وغيرها، ج: 2، ص: 211، ط: دار المعرفة)

'درر الحكام شرح غرر الأحكام' میں ہے:

"(وباقيه لمالكها) أي الأرض (إن ملكت وإلا) أي وإن لم تملك (فللواجد ولا شيء فيه) أي المعدن (إن وجده في داره وفي أرضه روايتان.

(قوله: ولا شيء فيه إن وجده في داره) أي المملوكة له عند أبي حنيفة، فإنه قال لا خمس في الدار والبيت والمنزل والحانوت وقالا يجب الخمس كما في البحر وسواء كان المالك مسلما أو ذميا كما في المحيط (قوله: وفي أرضه روايتان) أي عند أبي حنيفة رحمه الله في رواية لا يجب وفي رواية الجامع الصغير يجب والفرق على هذه الرواية بين الأرض والدار أن الأرض لم تملك خالية عن المؤن بل فيها الخراج أو العشر والخمس من المؤن بخلاف الدار، فإنها تملك خالية عنها قالوا لو كان في داره نخلة تغل أكرارا من الثمار لا يجب كما في الفتح."

(كتاب الزكاة، باب الركاز، ج: 1، ص: 185، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وباقيه لمالكها إن ملكت وإلا) كجبل ومفازة. (فللواجد و) المعدن (لا شيء فيه إن وجده في داره) وحانوته (وأرضه) في رواية الأصل واختارها في الكنز.

وفي الرد: والحاصل: أن معدن الأرض المملوكة جميعه للمالك سواء كان هو الواجد أو غيره وهذا رواية الأصل الآتية وفي رواية الجامع يجب فيه الخمس وباقيه للمالك مطلقا... (قوله: في رواية الأصل إلخ) راجع لقوله وأرضه قال في غاية البيان، وفي الأرض المملوكة روايتان عن أبي حنيفة فعلى رواية الأصل لا فرق بين الأرض والدار حيث لا شيء فيهما؛ لأن الأرض لما انتقلت إليه انتقلت بجميع أجزائها، والمعدن من تربة الأرض فلم يجب فيه الخمس لما ملكه كالغنيمة إذا باعها الإمام من إنسان سقط عنها حق سائر الناس؛ لأنه ملكها ببدل كذا قال الجصاص وعلى رواية الجامع الصغير بينهما فرق ووجهه أن الدار لا مؤنة فيها أصلا فلم تخمس فصار الكل للواجد بخلاف الأرض، فإن فيها مؤنة الخراج والعشر فتخمس. اهـ.

(قوله: واختارها في الكنز) أي حيث اقتصر عليها كالمصنف وأراد بذلك بيان أنها الأرجح لكن في الهداية قال عن أبي حنيفة روايتان ثم ذكر وجه الفرق بين الأرض والدار على رواية الجامع الصغير ولم يذكر وجه رواية الأصل وربما يشعر هذا باختيار رواية الجامع وفي حاشية العلامة نوح أن القياس يقتضي ترجيحها لأمرين الأول أن رواية الجامع الصغير تقدم على غيرها عند المعارضة. الثاني: أنها موافقة لقول الصاحبين والأخذ بالمتفق عليه في الرواية أولى."

(‌‌كتاب الزكاة، باب زكاة الركاز، ج: 2، ص: 321،320، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"الثاني ‌إذا ‌دفع ‌الرشوة ‌إلى ‌القاضي ‌ليقضي ‌له حرم من الجانبين سواء كان القضاء بحق أو بغير حق، ومنها إذا دفع الرشوة خوفا على نفسه أو ماله فهو حرام على الآخذ غير حرام على الدافع."

(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، ج: 6، ص: 285، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 424،423، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"‌أما ‌في ‌زماننا ‌فأكثر ‌النوائب ‌تؤخذ ‌ظلما، ومن تمكن من دفع الظلم عن نفسه فهو خير له."

(كتاب الكفالة، فصل في الضمان، ج: 7، ص: 223، ط: دار الفكر، لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌الكذب ‌مباح ‌لإحياء ‌حقه ‌ودفع ‌الظلم ‌عن ‌نفسه والمراد التعريض لأن عين الكذب حرام قال: وهو الحق قال تعالى - {قتل الخراصون}."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 427، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں