بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈارون کے نظریات پڑھنے کا حکم


سوال

 میں اسکول میں پڑھتا ہوں، وہاں ڈارون کے نظریات جوکہ غلط ہیں پڑھتا ہوں، اب سوال یہ ہے کہ میرے لیے اس کا پڑھنا اور اس کی کتاب کو اپنے پاس رکھنا کیسا ہے ؟ کیا گناہ ہوگا؟

جواب

ڈارون انیسویں صدی کا ایک مشہور سائنس دان  ہے، اس کے منجملہ نظریات میں سے ایک مشہور نظریہ  "نظریۂ ارتقاء" ہے، یہ نظریہ  مع دیگر نظریات نصوص ِ قطعیہ کے خلاف ہے۔لہذا اگر ڈارون کے نظریات آپ کو اسکول میں پڑھائے جائیں اور آپ اس کو غلط سمجھ کر محض معلومات کے لیے پڑھ رہے ہوں یا اس کے رد میں لکھنا ہواور  آپ صحیح غلط میں تمییز کرنے کے اہل بھی ہوں، تو شرعاً اس کو پڑھنے کی، اس سے متعلقہ کتب رکھنے کی  اجازت ہے، ہاں اگر  ان نظریات کو پڑھنے سے آپ کا ایمان اور اعتقاد خطرے میں ہےاور ذہن میں مختلف شکوک وشبہات آئیں تو اس کو ترک کرنا ضروری ہے۔

"فتاوی ہندیہ "میں ہے:

"قال الشيخ الإمام صدر الإسلام أبو اليسر نظرت في الكتب التي صنفها المتقدمون في علم التوحيد فوجدت بعضها للفلاسفة مثل إسحاق الكندي والاستقراري وأمثالهما وذلك كله خارج عن الدين المستقيم زائغ عن الطريق القويمفلا يجوز النظر في تلك الكتب ولا يجوز إمساكها فإنها مشحونة من الشرك والضلال قال ووجدت أيضا تصانيف كثيرة في هذا الفن للمعتزلة مثل عبد الجبار الرازي والجبائي والكعبي والنظام وغيرهمفلا يجوز إمساك تلك الكتب والنظر فيها كي لا تحدث الشكوك ولا يتمكن الوهن في العقائد وكذلك المجسمة صنفوا كتبا في هذا الفن مثل محمد بن هيصم وأمثاله فلا يحل النظر في تلك الكتب ولا إمساكها فإنهم شر أهل البدعوقد صنف الأشعري كتبا كثيرة لتصحيح مذهب المعتزلة ثم إن الله عز وجل لما تفضل عليه بالهدى صنف كتابا ناقضا لما صنف لتصحيح مذهب المعتزلة إلا أن أصحابنا رحمهم الله تعالى من أهل السنة والجماعة خطئوه في بعض المسائل التي أخطأ فيها أبو الحسن فمن وقف على المسائل وعرف خطأه فلا بأس بالنظر في كتبه وإمساكها وعامة أصحاب الشافعي - رحمه الله تعالى - أخذوا بما استقر عليه أبو الحسن ويطول تعداد ما أخطأ أبو الحسن وكذلك لا بأس بإمساك تصانيف أبي محمد عبد الله بن سعيد القطان وهو أقدم من أبي الحسن الأشعري وأقاويله توافق أقاويل أهل السنة والجماعة إلا في مسائل قلائل لا تبلغ عشر مسائل فإنه خالف فيها أهل السنة والجماعة لكن إنما يحل النظر بشرط الوقوف على ما أخطأ فيه كذا في الظهيرية.ومن العلوم المذمومة علوم ‌الفلاسفة فإنه لا يجوز قراءتها لمن لم يكن متجرا في العلم وسائر الحجج عليهم وحل شبهاتهم والخروج عن إشكالاتهم."

(كتاب الحظر والاباحة،ج:5،ص:378،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں