بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دروازے پر دستک کی بنا پر نماز توڑنے کا حکم


سوال

کیا سنتوں کی نیت کر کے نماز توڑ سکتے ہیں؟  ابھی میں نے نماز کی نیت باندھی اور گھر کے دروازے پر کوئی آگیا، جب کہ میرے علاوہ گھر میں کوئی اور نہیں تھا دروازہ کھولنے کے لیے،  تو کیا نماز کو پہلی رکعت میں توڑ سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعتاً دروازہ کھولنے کی    شدید ضرورت پیش ہو ، تو اس صورت میں  نماز توڑنا جائز ہے،البتہ بعد میں اس سنت نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم ہو گا،واضح رہے کہ محض دروازے پر دستک سن کر نماز توڑنا صحیح نہیں ہے،    بغیر کسی شدید ضرورت کے صرف دستک سن کر نمازتوڑنا ،گناہ کا باعث ہے؛ لہذا اگر سائل سے کبھی ایسا ہوا ہے،تو اسے چاہیے کہ  اپنے اس عمل پر توبہ و استغفار  کرے اور آئندہ اس سے احتراز کرے،اور اس نماز کو دوبارہ پڑھے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويباح قطعها لنحو قتل حية، وند دابة، وفور قدر، وضياع ما قيمته درهم له أو لغيره. ويستحب لمدافعة الأخبثين، وللخروج من الخلاف إن لم يخف فوت وقت أو جماعة ويجب لإغاثة ملهوف وغريق وحريق، لا لنداء أحد أبويه بلا استغاثة إلا في النفل، فإن علم أنه يصلي لا بأس أن لا يجيبه، وإن لم يعلم أجابه.

(قوله: لا لنداء أحد أبويه إلخ) المراد بهما الأصول وإن علوا، وظاهر سياقه أنه نفي لوجوب الإجابة فيصدق مع بقاء الندب والجواز ط. قلت: لكن ظاهر الفتح أنه نفي للجواز. وبه صرح في الإمداد بقوله أي لا قطعها بنداء أحد أبويه من غير استغاثة وطلب إعانة لأن قطعها لايجوز إلا لضرورة."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:654، ط:دار الفكر۔بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں