بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دروازہ کھولنے کے لیے نماز توڑنے کا حکم


سوال

میں  نماز   پڑھ  رہا  تھا  کہ  کسی  نے  میرے  دروازے  پر  دستک  دی  اور   میں  نے  نماز  توڑ  کر  دروازہ  کھولا،  اب میرا کیا کفارہ ہوگا؟

جواب

بلا کسی شدید ضرورت کے نماز کو توڑنا جائز نہیں ہے، اگر آپ نے کسی کے دستک دینے  کی وجہ سے دروازہ کھولنے کے  لیے نماز توڑ دی تو اگر کوئی شدید ضرورت نہیں تھی تو  ایسا کرنے کی وجہ سے آپ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں اور آپ پر اس گناہ سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، البتہ الگ سے کوئی  کفارہ لازم نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 654):

’’و يباح قطعها لنحو قتل حية، وند دابة، وفور قدر، وضياع ما قيمته درهم له أو لغيره. ويستحب لمدافعة الأخبثين، وللخروج من الخلاف إن لم يخف فوت وقت أو جماعة ويجب لإغاثة ملهوف وغريق وحريق، لا لنداء أحد أبويه بلا استغاثة إلا في النفل، فإن علم أنه يصلي لا بأس أن لا يجيبه، وإن لم يعلم أجابه.

(قوله: لا لنداء أحد أبويه إلخ) المراد بهما الأصول وإن علوا، وظاهر سياقه أنه نفي لوجوب الإجابة فيصدق مع بقاء الندب والجواز ط. قلت: لكن ظاهر الفتح أنه نفي للجواز. وبه صرح في الإمداد بقوله أي لا قطعها بنداء أحد أبويه من غير استغاثة وطلب إعانة لأن قطعها لايجوز إلا لضرورة.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں