بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

درود و سلام پڑھتے وقت کھڑے ہونے کا حکم


سوال

کیا دورد و سلام پڑھتے وقت کھڑا ہونا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے صلاۃ وسلام کے الفاظِ مبارکہ جو نکلے ہیں اور وہ کتبِ حدیث میں موجود ہیں ان الفاظِ مبارکہ سے صلاۃ وسلام پڑھنے کا معمول بیٹھ کر ہے، حضراتِ سلفِ صالحین، اولیائے عظام اور ان کے سچے متبعین اہلِ حق اہلِ سنت والجماعت کا معمول رہا ہے، البتہ جس خوش نصیب کو مدینہٴ طیبہ زادها الله شرفاً وکرامةً وهیبةً میں روضہٴ اقدس پر حاضری کا شرف اور دولت حاصل ہوجائے تو وہاں بے شک ادب یہی ہے کہ مبارک جالی سے جہتِ قبلہ کی جانب تقریباً چار ہاتھ کے فاصلہ سے کھڑے  ہوکر صلاۃ  وسلام پیش کیا جائے اور وہ بھی  بہت موٴدب ہلکی آواز سے پڑھا جائے۔

عام حالت میں درود کے لیے کھڑے ہونے کا اہتمام و التزام کرنا بدعت  و نا جائز ہے، اسی طرح  درود شریف  پڑھنے کے وقت  اس عقیدے سے کھڑا ہونا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہر جگہ حاضر ناظر  ہیں، نیکی  نہیں،  بلکہ  گناہ ہے۔ اور کوئی شخص آپ ﷺ کے نام کے اَدب میں یہ عمل کرتا ہے تو ایسے افراد کو خود رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل سامنے رکھنا چاہیے کہ آپ ﷺ کے حقیقی عاشقین کا آپ ﷺ کی مجلس میں آمد پر کیا عمل ہوتا تھا، رسول اللہ ﷺ کے خادمِ خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کوئی بھی محبوب نہیں تھا، لیکن جب وہ رسول اللہ ﷺ کو دیکھتے تھے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے؛ کیوں کہ انہوں معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ ناپسند ہے۔ (رواہ الترمذی، وقال: ھذا حدیث حسن صحیح۔ بحوالہ مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب القیام، الفصل الثانی، ص: 403، ط: قدیمی کراچی)

صحيح البخاري  میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌من ‌أحدث ‌في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد."

ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:کہ جس نے ہماری دین میں ایسی بات ایجاد کی جس کا تعلق  ہمارے حکم سے  نہیں ہے تو وہ رد کردینے کے قابل ہے

(صحيح البخاري، باب: إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، ج:2، ص:959،  رقم:2550، ط:دار ابن كثير)

صحيح مسلم ہے:

"عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ‌من ‌عمل عملا ليس عليه أمرنا ‌فهو ‌رد."

ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:کہ جس نے (دین سمجھ کر) ایسا کام کیا جس کے تعلق سے ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ رد کردینے کے قابل ہے۔"

(صحيح مسلم،‌‌باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور،  ج:5، ص:132،  رقم:1718، ط:دار الطباعة العامرة التركية)

الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي  میں ہے:

"ظهر لك أن الوقوف بعد قراءة الآية غير سنة، ولأجل ذلك لم ينقل عنه صلى الله عليه وسلم ولا عن أصحابه وقوف عند قراءة الآية بعد ذلك فدل على أن فعله صلى الله عليه وسلم وأفعالهم إنما كان لسبب وقد زال، وحينئذ ففعل ذلك الآن بدعة لا ينبغي ارتكابها لإبهام العامة ندبها. ونظير ذلك فعل كثير عند ذكر ‌مولده صلى الله عليه وسلم ووضع أمه له من القيام وهو أيضا بدعة لم يرد فيه شيء على أن الناس إنما يفعلون ذلك تعظيما له صلى الله عليه وسلم فالعوام معذورون لذلك بخلاف الخواص والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب."

(الفتاوى الحديثية ،ص:58،  ط:دار الفكر)

الاعتصام للشاطبي میں ہے:

"ومنها: ‌التزام ‌الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك..ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته..وثم أوجه تضاهي بها البدعة الأمور المشروعة، فلو كانت لا تضاهي الأمور المشروعة لم تكن بدعة، لأنها تصير من باب الأفعال العادية."

(الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ج:1، ص:53، ط:دار ابن عفان، السعودية)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"وفي البزازية قال علماؤنا من قال ‌أرواح المشايخ حاضرة تعلم يكفر ومن قال بخلق القرآن فهو كافر."

 (كتاب السير، باب أحكام المرتدين، ج:5، ص:134، ط:دار الكتاب الإسلامي)

کفایت المفتی میں ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے:

"مسجد میں صلوۃ و سلام پڑھنا جائز ہے مگر کھڑا ہونا ضروری نہیں بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں قیام کو ضروری سمجھنا ناجائز ہے ،  میلاد شریف کی مروجہ صورت اور تمام قیود و شرائط جو رواج پذیر ہیں بدعت ہیں ۔"

(کتاب الصلوۃ، ج:3، ص:204، ط:دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"یہ طریقہ  سلف صالحین سے منقول نہیں ہے، اور نہ کسی شرعی دلیل سے ثابت ہے، یہ بدعتی کا طریقہ ہے۔"

(باب البدعات و الرسوم، ج:21، ص:171، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں