بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

درسِ نظامی کے بعد عالم کے لیے تبلیغ میں سال لگانے کو ضروری خیال کرنے کا حکم


سوال

مجھے یہ بات بار ہا سننے میں آئی ہے جس سے مجھے بہت تشویش بھی ہورہی ہے ، مجھے ایک مجلس میں کہا گیا کہ آپ جب تک تبلیغ میں ایک سال نہیں لگاؤ گےاس وقت تک ہم آپ کو پگڑی نہیں پہنائیں گے ،آپ نے تبلیغی سال لازمی لگانا ہے وگرنا آپ پکے مولوی نہیں ہو ں گے ، اسی طرح ایک شخص نے مجھے کہا تم پر سال لگانا فرض ہے،ایک شخص نے مجھے کہا اگر تم نے تبلیغی ایک سال لگایا تو اللہ تعالیٰ تم کو چمکادیں گے،  ایسا ہی دو روز قبل ایک مجلس میں مجھے دیکھ کر ایک اور شخص نے کہا کے تم سب کو کہو اور یہ بات عام کردو کہ درسِ نظامی کے بعد جو سال نہیں لگائے گا تو اسے پگڑی نہیں پہنائیں گے، مجھ یہ کچھ مہینے بہت دردناک گزرے جب مسجد جاؤں یا کسی مجلس میں بیٹھوں تو پہلے سوال یہی ہوتا ہے کہ سال لگایا ہے ؟ میں جواب میں یہ کہتا ہو ں کہ نہیں لگایا تو پھر ان کے جوابات ایسے ہوتے ہیں کہ  مجھے تو یہ سال لگانا فرض سمجھ میں آتا ہے، ہمارے ہاں بغیر سال لگائے عالم یا غیر تبلیغی طالب علم کو انتہائی نیچی نظر سے دیکھتے ہیں جو سال لگائے یا ان سے جڑے رہے تو عزت کرتے ہیں وگرنا تو ہمیں کو تبلیغ کا بلکہ دین کا دشمن سمجھتے ہیں ،  مجھے مسجد کا امام بنارہے ہیں لیکن یہ شرط رکھی ہے کہ تم نے فراغت کے بعد سال لگانا ہے ورنہ امام کسی اور عالم کو بنائیں گے جس نے سال لگایا ہو۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا عالم کے لیے درسِ نظامی کے بعد سال لگانا فرض ہے؟کیا اب امام بننے کے لیے بھی سال ضروری ہے؟ یہ عقیدہ رکھناکہ آٹھ سال بعد جو عالم سال لگائےگا وہ تو قابلِ قبول ہے اور جو نہ لگائے وہ قابل قبول نہیں، اسے اس حد تک لے جانا،کیا ایسا کرنا شرعاًدرست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تبلیغ میں وقت لگانا اصلاح  اور دین کی دعوت کے احساس کو اجاگر کرنے کے لیے بہت مفید ہے، لیکن اس میں افراد کی نوعیت اور نجی معاملات کا خیال کرنا چاہیےمصلحت کے ساتھ ترغیب دینی چاہیے  اگر کوئی شخص عذر پیش کرتا ہے تو اس پر بلاوجہ جبر نہیں کرنا چاہیے ،اس دور میں  بے علمی اور  بے عملی  عام ہے، عوام تک دین پہنچانے اور ان کے دین کو پختہ کرنے کے  لیے موجودہ تبلیغی کام بے حد مفید ہے  اور اس کا مشاہدہ ہے،لیکن جو شخص دوسرے طریقہ سے دین حاصل کرے اور اسے دوسروں تک پہنچائے، اسےحقارت و  تنگ نظری سے نہ دیکھا جائے۔

عالم کا کام تفسیر و حدیث کی تعلیم و تدریس، امت کی ضروریات کے پیش نظر فتاوی نویسی کے ذریعہ ان کی رہبری، زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ان کو مسائل بتانا لوگوں کے بگڑے ہوئے عقائد کو درست کرنا، فرق ضالّہ اور فرق باطلہ کے حملوں سے اسلام اور مسلمانوں کو بچانا، عبادات ، اخلاق اور معاملات میں بگاڑ کی وجہ سے قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرنا، طرح طرح کے اٹھنے والے آئے دن کے فتنوں کو دبانا، امت کے گھریلو مسائل، سماجی اور سیاسی مسائل کو دیکھنا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کو ہدایت دینا، اس طرح کے بہت سے امو رہیں جو جماعت میں جانے اور سال لگانے سے کہیں زیادہ اہم ہیں، یہ سب دین کے اہم کام ہیں، انہیں چھوڑ کر اس سے کم  اہم کام میں یعنی جماعت میں سال لگانا عالم کےلیےضروری نہیں،اور نہ ہی اس پر  عند اللہ قبولیت وعدمِ قبولیت  کا انحصار ہے۔

تاہم اگر کوئی عالم فارغ البال ہے اپنی خوشی سے جماعت میں ایک سال کے لیے جانا چاہتا ہے تو جاسکتا ہے لیکن عالم کے لیے سال لگانے کو ضروری قرار دینا، جو عالم جماعت میں سال نہ لگائے اسے امام نہ بنانا، مدرس نہ رکھنا، یا مدرسی اور امامت سے انہیں ہٹا دینا، یہ سب غلو کی باتیں ہیں ، دین میں غلو اختیار کرنے سے قرآن پاک میں ممانعت آئی ہے،لہذا  اگر کسی عالمِ دین نے تبلیغی جماعت کی مروجہ ترتیب کے مطابق فراغت کے بعد سال نہیں لگایا تو  اس میں کوئی حرج نہیں ہے،ہمارے موجودہ اور گزرے ہوئے زمانہ کے بہت سے اکابرین ایسے گزرے ہیں کہ جن کی دین کے سلسلہ میں محنت قابلِ رشک ہےجنہوں نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کیا،لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ جنہوں نے سال لگایا ہو،اگر سال لگانا ضروری ہوتا تو یہ اکابرین بھی ضرورسال لگاتے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ."(سورة النساء،آیت نمبر:171)

ترجمہ:"اے اہل کتاب  تم اپنے دین میں حد سے مت نکلو اور خدا تعالیٰ کی شان میں غلط بات مت کہو ۔"(بیان القرآن)

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا."(سورۃ البقرۃ،آیت نمبر:143)

ترجمہ:"اور ہم نے تم کو ایک ایسی جماعت بنادیا ہے جو (ہر پہلو سے) نہایت اعتدال پر ہے تاکہ تم لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو اور تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گواہ ہوں ۔"(بیان القرآن)

صحيح البخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن ‌الدين ‌يسر، ولن يشاد الدين أحد إلا غلبه، فسددوا وقاربوا، وأبشروا، واستعينوا بالغدوة والروحة، وشيء من الدلجة."

(کتاب الایمان،باب الدین یسر،17/1،ط:مکتبہ سلطانیۃ)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں،آپ نے فرمایادین بہت آسان ہے جو شخص دین میں سختی کرے گا،وہ اس پر غالب آجائے گاپس تم لوگ میانہ روی کرو اور(اعتدال سے)قریب رہو،اورخوش ہوجاؤ(کہ تمہیں ایسا آسان دین ملا )اور صبح اور دوپہر کے بعداور کچھ رات میں عبادت کرنے سے دینی قوت حاصل کرو۔"(بخاری شریف مترجم،از مولانا سحبان محمودؒ،113/1)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں