بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

درس کے وقت خارجی باتیں کرنے اور اپنے متعینہ وقت سے زیادہ وقت لینے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ  مسند درس پر  بیٹھ کر درس کے  وقت میں خارجی بات کرنا کیسا ہے؟ درس کے متعینہ وقت سے زیادہ وقت لینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ استاد صاحب  مدرسے میں اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ درس گاہ میں وقت پر آئیں،اور جو کام مدرسے کی انتظامیہ کی طرف سے ان کے ذمہ سپردکیا گیا ہے اس کو اسی وقت میں پورا کریں،اگر مقررہ وقت ختم ہوجائے اور دوسرا استاد آجائے تو وہ کلاس سے اٹھ جائے اور اگر کسی دوسرے استاد کا وقت نہ ہو تو پھر کچھ زیادہ وقت میں بھی سبق پڑھاتا ہے تو چوں کہ اس میں دوسرے استاد کی حق تلفی نہیں ہورہی؛  لہذا یہ جائز ہوگا۔

باقی خارجی باتوں  میں جواز  و  عدم جواز ،  دونوں صورتیں ممکن ہیں، نیز خارجی باتوں سے سائل کی کیا مراد ہے؟  لہذا سائل تفصیل بتا کر جواب معلوم کرسکتا ہے۔

فتاویٰ شامی  ميں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص)...وليس للخاص أن يعمل لغيره.

(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى."

(كتاب الإجارة،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،ج:6،ص:70،  ط:سعيد)

تعليم المتعلم في طريق التعلم میں ہے:

"اعلم بأن طالب العلم لاينال العلم ولا ينتفع به إلا بتعظيم العلم وأهله وتعظيم الأستاذ وتوقيره.قيل: ما وصل من وصل إلا بالحرمة وما سقط من سقط إلا بترك الحرمة.وقيل: الحرمة خير من الطاعة...ومن تعظيم العلم تعظيم المعلم."

(فصل في تعظيم العلم وأهله، ص:55، ط:دار ابن كثير)

آداب العلماء والمتعلمين میں  ہے:

"والأولى للمدرس أن يمكث قليلاً بعد قيام الجماعة فإن فيه فوائد وآداباً له ولهم، منها عدم مزاحمتهم، ومنها أن كان في نفس أحدهم بقايا سؤال سأله، ومنها عدم ركوبه بينهم أن كان يركب وغير ذلك. ويستحب إذا قام أن يدعو بما ورد به الحديث، سبحانك اللهّ، اللهم وبحمدك لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك."

(‌‌الفصل الثالث في آداب العَالِم مع طَلَبتِه، ص:9 ، ط:مكتبة العلم)

وفیہ ایضاً:

"السابع: إذا فرغ الشيخ من شرح درس، فلا بأس بطرح مسائل تتعلق به على الطلبة، يمتحن بها فهمهم وضبطهم لما شرح لهم، فمن طهر استحكام فهمه له بتكرار الإصابة في جوابه شكره..الثاني عشر: أن يرقب أحوال الطلبة في آدابهم وهديهم وأخلاقهم باطناً وظاهراً، فمن صدر منه من ذلك ما لا يليق من ارتكاب محرم أو مكروه، أو ما يؤدي إلى فساد حال، أو ترك اشتغال، أو إساءة أدب في حق الشيخ أو غيره، أو كثرة كلام بغير توجيه ولا فائدة، ومعاشرة من لا تليق معاشرته."

(‌‌الفصل الثالث في آداب العَالِم مع طَلَبتِه، ص:11، ط:مكتبة العلم)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144506101108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں