بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

درود ابراہیمی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر کی وجوہات


سوال

درود ابرہیمی میں حضرت ابراہیم کا تذکرہ کیوں ہے؟ اور اگر ان کا ہے تو باقی انبیاء کا کیوں نہیں ہے؟

جواب

درود ابراہیمی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں:

1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شب  معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے امت محمدیہ کو سلام کہلوایا 

2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمارا نام مسلمان رکھا لہذا ان کی فضیلت  کو ظاہر کرنے کے لیے مذکورہ دو کاموں کی وجہ سے بدلہ کے طور   ان کے ذکر کو خاص کیا۔

3۔ درود شریف سے مقصود یہ دعا کرنا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنا خلیل بنائیں، اور اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول بھی فرما لیا۔

4۔ حضرت ابراهيم عليه السلام نسب كے اعتبار  آپ صلي الله عليه وسلم كے آباء ميں شامل هيں؛ اس ليے ان كا ذكر خاص طور پر كيا گيا هے۔

5۔ حضرت ابراهيم  علیہ السلام  متفق علیہ طور پر  بقیہ  تمام   انبیاءِ کرام علیہم السلام سے افضل  ہیں۔

6۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام  کا ذکر خیر دوام کے ساتھ باقی رہے جس کو وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ   میں بیان کیا گیا ہے۔

7۔آپ علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اقتدا کا حکم دیا گیا تھا، ان وجوہات کی بنا پر درود ابراہیمی میں حضرت ابراہیم کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وخص إبراهيم لسلامه علينا، أو لأنه سمانا المسلمين، أو لأن المطلوب صلاة يتخذه بها خليلا، 

(قوله وخص إبراهيم إلخ) جواب عن سؤال تقديره لم خص التشبيه بإبراهيم دون غيره من الرسل الكرام - عليه الصلاة والسلام -؟ فأجاب بثلاثة أجوبة:

الأول أنه سلم علينا ليلة المعراج حيث قال «أبلغ أمتك مني السلام» والثاني أنه سمانا المسلمين كما أخبرنا عنه تعالى بقوله {هو سماكم المسلمين من قبل} [الحج: ٧٨]- أي بقوله - {ربنا واجعلنا مسلمين لك ومن ذريتنا أمة مسلمة لك} [البقرة: ١٢٨]- والعرب من ذريته وذرية إسماعيل - عليهما السلام -، فقصدنا إظهار فضله مجازاة على هذين الفعلين منه.

والثالث أن المطلوب صلاة يتخذ الله تعالى بها نبينا - صلى الله عليه وسلم - خليلا كما اتخذ إبراهيم - عليه السلام - خليلا، وقد استجاب الله دعاء عباده، فاتخذه الله تعالى خليلا أيضا؛ ففي حديث الصحيحين «ولكن صاحبكم خليل الرحمن» وأجيب بأجوبة أخر: منها أن ذلك لأبوته، والتشبيه في الفضائل بالآباء مرغوب فيه ولرفعة شأنه في الرسل، وكونه أفضل بقية الأنبياء على الراجح ولموافقتنا إياه في معالم الملة المشار إليه بقوله تعالى {ملة أبيكم إبراهيم} [الحج: ٧٨] ولدوام ذكره الجميل المشار إليه بقوله تعالى {واجعل لي لسان صدق في الآخرين} [الشعراء: ٨٤] وللأمر بالاقتداء به في قوله تعالى {أن اتبع ملة إبراهيم حنيفا} [النحل: ١٢٣] ".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں