بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

درمیان میں کپڑا حائل ہونے کی صورت میں حرمت مصاہرت کا حکم


سوال

زیدایک زانی مرد ہے، جو کالج کے دور میں اِس گناہ کا ایک لڑکی سے مرتکب ہو گیا تھا، لیکِن اب توبہ تائب بھی ہو چُکا ہے، اورزیدکے زانی ہونے کا علم کسی کو نہیں،اب گھر والے زید کا نکاح اس کی  پھُوپھی کی بیٹی سے کرنا چاہتے ہیں، جو کہ غیر زانیہ پاک دامن لڑکی ہے،لڑکی بھی تیار ہے اور ضد پر ہے اور زید بھی، لیکِن بیچ میں ایک مسئلہ ہے کہ ایک بار زید کافی پہلے اپنی پھُوپھی کو موٹرسائیکل پر بیٹھا کر ڈاکٹر کے پاس گیا تھا اور اس کی پھُوپھی زید کے کاندھے پر ہاتھ رکھے ہوئی تھی، کپڑا باریک بھی نہیں تھا عموماً لنگی کا کپڑا جتنا موٹا ہوتا ہے اُتنا تھا، اور جہاں پر ہاتھ تھا وہاں پر دوہرا کپڑا تھا ، اتنا موٹا تھا کہ تیز دھوپ میں اس کپڑےکے اندر سے سورج کو دیکھا جاۓ تو سورج کا پتا نہیں چلتا ہے، اور نہ ہی سورج کی روشنی کا، لیکِن اس کے باوجود بھی محسوس کرنے سے بالکل ہلکی ہلکی گرمی محسوس ہوجاتی ہے، ہم نے بعد میں چیک کرکے دیکھا ہے، لیکِن زید کو یاد نہیں ہے کہ اُس وقت اُس کے اندر شہوت تھی یا نہیں؟ حرارت محسوس ہُوئی یا نہیں؟غالب گمان بھی یہی ہے کہ شہوت نہیں تھی،لیکِن دل میں یہ وسوسہ اور خیال آتا ہے کہ کہیں شہوت رہی ہوگی تُجھے یاد نہیں اور کہیِں حرمتِ مصاہرت ثابت ہو گئی ہوگی، تُجھے یاد نہیں تو زندگی بھر بدکاری میں مبتلا رہ جائےگا، اور یہ وسوسہ تب سے آتا ہے جب سے حرمتِ مصاہرت کے مسئلہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔جواب جتنا جلد ممکن ہو دے دیجیے۔ آپ کے جواب کے بعد ہی کوئی فیصلہ لیا جائےگا۔

جواب

واضح رہے کہ کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے  ایک شرط یہ بھی ہے کہ شہوت کے ساتھ چھونا اس طور پر ہو کہ درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو اور اگر درمیان میں کوئی کپڑا حائل ہوتو  اتناباریک ہوکہ جسم کی حرارت پہنچنے سے مانع نہ ہو،  ورنہ حرمتِ ثابت نہیں ہوگی،لہذا صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص(زید)او ر اس کی پھوپھی کے درمیان  موٹا کپڑا حائل تھا اور اس کو شہوت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی یقین نہیں ہے، بلکہ شک ہے تو ایسی صورت  میں دونوں کے درمیان حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی،اور مذکورہ شخص(زید) کا اپنی پھوپھی کی لڑکی سے نکاح کرنا جائزہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المسّ إنما یوجب حرمة المصاهرة إذا لم یکن بینهما ثوبٌ ، أما إذا کان بینهما ثوب فإن کان صفیقاً لا یجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك، وإن کان رقیقاً بحیث تصل حرارة الممسوس إلی یده تثبت، کذا في الذخیرة".

(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرمات ج1،ص:275،ط:رشيديه )

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة الثالثة: اليقين لا يزول بالشك."

(القاعدة الثالثة ص:47،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101807

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں