بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

درندہ صفت مچھلی کو کھانے کا حکم


سوال

مچھلیوں میں سے اگر کوئی مچھلی درندہ صفت ہو یعنی اپنے دانتوں سے دیگر آبی مخلوق کا شکار کرتی ہو تو اس مچھلی کو کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

احناف  رحمہم اللہ کے  نزدیک  سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی کا کھانا حلال ہے ، مچھلی کے علاوہ کسی اور سمندری جانور کا کھانا جائز نہیں ہے۔ مچھلی کی کسی بھی نوع یا قسم کے بارے میں مچھلی کے ماہرین کی رائے معتبر ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ لہٰذا سمندری مخلوق کی جو قسم اہلِ لغت اور ماہرین کے مطابق مچھلی کی قسم ٹھہرے ، وہ اپنی غذا جس طرح بھی حاصل کرے  حلال ہوگی ،  اور جو مچھلی کی اقسام میں سے نہیں ہوگی وہ حلال نہیں ہوگی۔باقی اگر آپ شارک کے بارے میں پوچھنا چاہ رہے ہیں  تو یہ ایک سمندری درندہ ہے، اسے کلب البحر (سمندری کتا) کہا جاتا ہے ،اور درندے حرام ہوتے ہیں، لہٰذا یہ بھی حرام ہے، اس کا کھانا درست نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

مچھلی کی حرام اقسام

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"والسمك مأكول بجميع أنواعه يثبت الحل فيه بالكتاب والسنة قال الله تعالى: {أحل لكم صيد البحر} [المائدة: 96] وقال - صلى الله عليه وسلم -: «أحلت لنا ميتتان ودمان أما الميتتان فالسمك والجراد، وأما الدمان فالكبد والطحال»."

(كتاب الصيد، ذكاة السمك والجراد، ج:11، ص:230، ط: دار المعرفة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالحيوان في الأصل نوعان: نوع يعيش في البحر، ونوع يعيش في البر ‌أما ‌الذي ‌يعيش ‌في ‌البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصة فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه وهذا قول أصحابنا-رضي الله عنهم."

(كتاب الذبائح والصيود، المأكول وغير المأكول من الحيوانات، ج:5، ص:35، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

 

"(ولا يحل) (ذو ناب يصيد بنابه) فخرج نحو البعير (أو مخلب يصيد بمخلبه) أي ظفره فخرج نحو الحمامة (من سبع) بيان لذي ناب. والسبع: كل مختطف منتهب جارح قاتل عادةً."

(كتاب الذبائح، ج:6، ص:304، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں