بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی تراشنے کا حکم


سوال

 مصر کے علماء و قراء کرام اپنی داڑھیوں کو تراشتے کیوں ہیں ؟‌ ان کی داڑھی رکھنے کے بارے میں کیا راۓ ہیں ؟ مدلل جواب ارسال کریں ۔

جواب

داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور  مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا  حکم دیا ہے، اس لیے  جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا  حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہےاور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں کسی بھی مسلمان (عالم ہویا غیر عالم، مصری ہویا کوئی اور)کا داڑھی تراشنا اورمنڈوانا ناجائز و حرام اور خواہش نفسانی کی پیروی ہےاور تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰت و التسلیمات کے عظیم سنت کی مخالفت ، کفار کی مشابہت، اعلانیہ گناہ وغیرہ جیسے بڑے بڑے گناہوں  کا ارتکاب ہے،جس کی شریعت کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتی ہے ، لہذا ہر مسلمان داڑھی منڈوانے  سے مکمل اجتناب کرکےشفاعت نبویﷺ کی امید رکھے، باقی اہل مصر کے علماء کا عمل اور رائے کا انہیں سے معلوم کریں۔

صحیح مسلم میں ہے:

" عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: جُزُّوا الشوارب، وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس".

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے    کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔"

(کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، ج: 1، ص: 129، رقم: 240، ط: بیت الأفکار الدولیة)

ڈاڑھی کے شرعی حکم سے متعلق حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے افادات میں ہے: 

" داڑھی قبضہ (ایک مشت) سے کم کرانا حرام ہے، بلکہ یہ دوسرے کبیرہ گناہوں سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے اس کے اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اس میں دینِ اسلام کی کھلی توہین ہے اور اعلانیہ گناہ کرنے والے معافی کے لائق نہیں، اور ڈاڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا  ہوا ہے حتی کے نماز وغیرہ عبادات  میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلا ہے"۔

( "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے"ص 10،مکتبہ حکیم الامت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں