بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی والے شخص کو غصے میں سکھ کہنے کا حکم


سوال

الف  اور ح ماموں زاد بھائی ہے، دونوں کی آپس میں روزمرہ کی بحث جاری رہتی ہے، آپس میں برسوں کے تعلقات بھی ہے، اور الف سنی مسلمان ، صوم وصلوۃ کے پابند ہے، اور سنتِ رسول ﷺ(داڑھی ) بھی رکھی ہوئی ہے، جب کہ ح نے الف کو جگہ جگہ سکھ کے نام سے پکارنا شروع کردیا، ح کا الف کو  اس طرح سکھ کے الفاظ سے پکارنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کو  بغیر کسی شرعی دلیل کے کافر کہنا یا کافر پکارنا، اس کو کھیل بنالینا سخت گناہ ہے، بل کہ کہنے والے کے اپنے ایمان کے لیے بھی خطرناک ہے، اس سے کہنے والے کا اپنا ایمان سلامت نہیں رہتا، اسی طرح اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو گالی کے طور پر کافر کہے تو اس سے کہنے والا کافر تو نہیں ہوگا ، البتہ یہ گناہ کبیرہ اور حرام ہے، اور اگر ایسے مسلمان کو کافر سمجھ کر کافر کہا جس میں کفر کی کوئی بات نہ پائی جاتی ہو  تو کہنے والا خود ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے گا۔

حدیث شریف میں ہے:

"حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا، یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیایا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا( بخاری ومسلم)۔"

(مشکاۃ المصابیح)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وعزر) الشاتم (بيا كافر) وهل يكفر إن اعتقد المسلم كافرا؟ نعم وإلا لا به يفتى شرح وهبانية، ولو أجابه لبيك كفر خلاصة. وفي التتارخانية، قيل لا يعزر ما لم يقل يا كافر بالله لأنه كافر بالطاغوت فيكون محتملا."

(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:69، ط:سعيد)

لہذا کسی بھی مسلمان کو کافر یا سکھ یا کسی بھی ایسے نام سے پکارنا شرعاً جائز نہیں ، اس سے احتراز لازم ہے،اسی طرح   اگر اس شخص کا مقصد داڑھی کی سنت کا مذاق اڑانا تھا، تو تجدید ایمان لازم ہے، اگر شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی لازم ہے، اور اگر سنت کا مذاق اڑانا مقصود نہیں تھا، بلکہ محض  اس شخص پرغصے میں  اس کے متعلق یہ الفاظ کہے تو کہنے والا کافر نہیں ہوا، البتہ سخت گناہ گار ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الفتح: من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد.ثم قال: ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمداً، بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافاً بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق."

(كتاب الجهاد، باب المرتد، ج:4، صفحہ: 222، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں