بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی رکھنے کا حکم


سوال

 حضرت میرا ایک کزن ہے، جو حال ہی میں اسلامک اسٹڈیز میں ایم فل کر رہا ہے،کہتا ہے کہ امام ابنِ حجر الھیتمی،امام رافعی،امام رملی،امام نووی،امام غزالی، اور مصر کے فقہاء کے نزدیک داڑھی مستحب ہے، اور بہت سے فقہاء کے نزدیک واجب ہے، تو چوں کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ  ہے، تو اس پر اتنی شدت کیوں؟

جواب

واضح رہے کہ داڑھی تمام انبیاء اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت،مسلمانوں کادینی شعار،اور مرد کی طبعی اور فطری چیزوں میں سے ہے،اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے امت کو اس فعل کے کرنے کی تاکید فرمائی ہے،جوکہ داڑھی کے واجب ہونے کی واضح دلیل ہے،نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو داڑھی رکھنے کی تعلیم صیغہ امر(حکم فرمانا)کے ذریعے دی ہے،جو کہ وجوب کا مقتضی ہے، اس لیے  جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا  حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے،اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے "امام مسلم" اور اصحابِ سنن نے روایت کیا ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ( پیدائشی سنت ہیں): ایک تو مونچھ خوب  کتروانا، دوسری داڑھی چھوڑنا، تیسری مسواک کرنا، چوتھی پانی سے ناک صاف کرنا، پانچویں ناخن کا ٹنا، چھٹی انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ساتویں بغل کے بال اُکھاڑنا، آٹھویں زیرِ ناف کے بال مونڈنا، نویں پانی سے استنجا کرنا۔  زکریاؒ روای کہتے ہیں کہ مصعبؒ نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، مگر یہ کہ یہ کلی ہوگی۔

"الصحيح المسلم"میں ہے:

 "عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء " قال زكريا: قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة". 

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:153، ط:دارالمنهاج)

"وفيه ايضاّ":

" عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: جُزُّوا الشوارب، وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس".

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:153، ط:دارالمنهاج)

ترجمہ:

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے    کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔"

اسی معنی کی مزید احادیث درج ذیل ہیں۔

" عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی".

( جامع الترمذي، أبواب الأدب، باب ماجاء في إعفاء اللحیة، النسخة الهندیة ۲/ ۱۰۵، دارالسلام رقم:۲۷۶۳) 

"وعن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: انهکوا الشوارب وأعفوا اللحی".

(صحیح البخاري، کتاب اللباس / باب إعفاء اللحی۲؍۸۷۵رقم:۵۸۹۳دار الفکر بیروت)

نیز داڑھی منڈوانا ایسا جرم ہے کہ اس کی حرمت پر ساری امت کا اجماع ہے، امت کا ایک فرد بھی اس قبیح فعل کے جواز کاقائل نہیں ہے،جب اتنی کثرت سے نصوص اس مسئلے پر شاہد ہیں تو شدت کا سبب خود ہی واضح ہوجاتاہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں