بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی رکھنا مسنون ہے یا واجب ؟


سوال

احناف کے ہاں ایک مٹھی داڑھی رکھنے کو واجب کہا گیا ہے، لیکن ہم جب احناف کی  کتب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے انہوں نے ایک مٹھی کو مسنون کہا ہے نہ کہ واجب،حوالہ درج ذیل ہیں:

1۔(کتاب الآثار لابی یوسف یعقوب بن ابراھیم الانصاری المتوفی 182ھ ،باب فی الخضاب والاخذ من اللحیة والشارب، رقم: 1058،دار الکتب ،صفحہ :459)

2۔عن ابی حنیفة عن حماد عن ابراھیم قال ولاباس ان یاخذ الرجل من لحیته مالم یتشبه باھل الشرک.(الدرالمختار ،کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد الصوم، صفحہ نمبر: 148 )

3۔لا بأسَ (لا) يكره (دهن شارب و) لا (كحل) إذا لم يقصد الزينة أو تطويل اللحية إذا كانت بقدر المسنون وهو القبضة،علامہ سبکی رحمہ اللّه ،المنہل العزب المورود میں کتاب الطھارة، مذاھب العلماء فی حکم اللحیة کے تحت لکھتے ہے کہ وهاكذا بعض نصوص المذاهب فيها قال فى كتاب الصوم من الدر المختار للحنفية لا يكره دهن شارب إذا لم يقصد الزينة أو تطويل اللحية إذا كانت بقدر المسنون وهو القبضة.(المنہل العذب المورود ،صفحہ :186جلد :1، بیروت لبنان )

4۔الجامع الکبیر شرح سنن ا لترمذی میں جلد :6 باب ماجاء فی اعفاء اللحیةصفحہ نمبر :336 حدیث نمبر: 4863 کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ، وفي الدر المختار : لا بأس بأخذ أطراف اللحیة والسنۃ فیہا القبضه، قال ابن عابدین ، کذا ذکرہ محمد فی کتاب الآثار.

5۔آخر میں مفتی کفایت اللہ دهلوی کی کتاب ،کفایت المفتی کے حوالے پر اکتفاء کروں گا، جو وہ ایک سائل کے جواب میں لکھتے ہیں،ایک مشت داڑھی رکھنا مسنون ہے اس مقدار سے زائد کو کتروانا جائز ہے،ایک مشت کی مقدار احادیث سے ثابت ہے، اور وہ احادیث ظنی ہیں ،اس لئے اس مقدار کو فرض یا واجب کہہ دینا مشکل ہے کہ اس کے خلاف کو فسق کہہ دیا جائے ایک مشت کے مقدار کو میں مسنون کہتا ہوں ،اور اس کے خلاف کو مکروہ بھی کہتا ہوں۔ (کفایت المفتی جلد 9 صفحہ 172 دارالاشاعت )

ان سب دلائل کو اگر دیکھا جائے تو ایک مشت کی مقدار کو مسنون ہی کہا جا سکتا ہے نہ کہ واجب،اگر واجب کہیں گے تو کس دلیل کے بنا پر  کہیں گے؟کیا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی  سے پہلے احناف میں سے کسی نے اس مقدار کو واجب کہا ہے؟میرے ان سوالات کا جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

جواب

داڑھی رکھنا بلاشبہ سنت بھی ہے اور واجب بھی، سنت کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے تعامل اور توارث کے ساتھ ثابت ہے، اور کئی احادیث میں بڑی تاکید کے ساتھ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  داڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکیدی معمول اور امت کا تعامل یہ وجوب اور لزوم کی دلیل ہے،  روایاتِ مذہب میں داڑھی کے سنت یا واجب ہونے کا اختلاف درحقیقت اصطلاحی اطلاق کا اختلاف ہے، چناں چہ ایک مشت کے برابر داڑھی رکھنا اس لیے واجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی تاکید کے ساتھ داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے، جن روایات کی بنا پر داڑھی بڑھانا واجب ہے،  دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے داڑھی کو ایک مشت کے بعد کم کروانا ثابت ہے، اس سے کم مقدار کسی سے بھی ثابت نہیں ہے، ان تمام روایات کے مجموعے سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ داڑھی کاٹنے کی آخری حد ایک مشت ہے، اس سے کم جائز نہیں ہے، اگر جائز ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی کم کرتے۔چنانچہ ملاحظہ ہو:

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہے:"أنّ النّبي صلی الله عليه وآله وسلم کان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها."

ترجمہ: نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی داڑھی مبارک لمبائی اور چوڑائی میں کم کرتے تھے۔

(ترمذی، السنن، 5: ص:94 رقم: 2762 ط: دار إحياء التراث العربي)

"عن إبن عمر رضی الله عنهما عن النّبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم قال: خالفوا المشرکين وفّروا اللّحی وأحفوا الشّوارب. وکان إبن عمر إِذا حجّ أو اعتمر قبض علی لِحيته فما فضل أخذه. "

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔

 (بخاري، الصحيح، ج:5 ص:2209، رقم: 5553 ط: دار ابن کثير اليمامة)

مروان بن سالم مقفع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔"يقبض علی لحيته فيقطع ما زاد علی الکفّ."

ترجمہ: وہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑ کر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔

(أبي داؤد، السنن، ج:2 ص: 306 رقم: 2357، دار الفکر، وحاکم المستدرک علی الصحيحين، ج:1 ص:584، رقم: 1536، ط: دار الکتب العلمية )

حضرت سماک بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں:"کان علي رضی الله عنه يأخذمن لِحْيته ممّا يلِي وجهه."

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے چہرے کے قریب سے داڑھی مبارک کاٹتے تھے۔

(ابن أبي شيبة، المصنف، ج:5 ص:225 رقم:25480 ط: مکتبة الرشد)

حضرت ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کان أبو هريرة رضی الله عنه يقْبض علی لحيته ثُمّ يأخذمافضل عن القبضة."

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔

اور واجب کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، اور تابعین،اور تبع تابعین، فقہاء، محدثین، علماء، مشایخ میں سے کسی نے بھی ڈاڑھی ایک مشت سے کم نہ رکھی ہے، اور نہ اس سےکم کے جواز کا کہا ہے،اور جن فقہاء کی عبارت میں سنت لکھا ہے، یہ ایسے ہے جیسے کہ عید اور تراویح، اور وتر وغیرہ بہت سی چیزوں کو سنت لکھا ہے، حالاں کہ یہ واجب ہیں۔

اور  مفتی کفایت اللہ دهلوی رحمۃ اللہ  کی کتاب کفایت المفتی میں بھی داڑھی کےباب میں اسی استفتاء کے شرع میں کہا ہےکہ " یکمشت سے کم رکھنا حرام ہے، اور اعفو اللحی کے مخالف ہے" حرام وہ فعل ہوتا ہے جس کا نہ کرنا واجب ہو، اور  مفتی کفایت اللہ دهلوی رحمۃ اللہ کا یہ لکھنا کہ "ایک مشت داڑھی رکھنا مسنون ہے" یہ تو تمام علماء کہتے ہیں ایک مشت داڑھی رکھنا سنت ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی ایک مشت تھی، اور صحابہ بھی ایک مشت رکھتے تھے، اور بڑھنے پر ایک مشت کے برابر کر  دیتے تھے، تو ایک مشت رکھنا سنت بھی ہے اور واجب بھی ہے حیثیت کا فرق ہے۔اور یہ لکھنا کہ " اس مقدار سے زائد کو کتروانا جائز ہے"مطلب یہی ہے کہ  زائد کو کتروانا جائز ہے یعنی لمبی داڑھی کو ایک مشت تک کر نا جائز ہے، اور یہی سنت ہے، جیسا کہ حکم ہے، اس کا یہ  مطلب ہرگز  نہیں کہ یکمشت سے  کم کتروانا جائز  ہے، اور مفتی صاحب کا یہ لکھنا کہ "اس مقدار کو فرض یا واجب کہہ دینا مشکل ہے " مراد فرض واجب اعتقادی ہے نا کہ عملی ، ایک مشت داڑھی کو واجب انہوں نے اسی باب میں لکھا ہے، اور اس سے کم والے کو فاسق بھی لکھا ہے، اور مفتی صاحب نے یہ جو لکھا ہےکہ"اس کے خلاف کو مکروہ بھی کہتا ہو" مراد مکروہ تحریمی ہے، اس باب میں انہوں نے لکھا ایک مشت سے کم رکھنا حرام  ہے، اور جہاں مکروہ تنزیہی لکھا ہے اس کے بارے میں یہ فر مایا ہے کہ قطع یسر  معمولی کم ہو، اور فرمایا مشت بھرنے میں کمی بیشی ہو جاتی ہے،اورمفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ  اورشاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ   بھی اپنے پیش رو علماء احناف کی طرح یکمشت  سے کم کرنے کے جواز کے قائل نہیں ہیں، بلکہ ان حضرات سے وجوب کی صراحتیں جا بجا موجود ہیں۔

در مختار میں ہی ہے:

"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم".

(٢/ ٤١٨، ط: سعيد)

اس موضوع پر مستقل رسالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں ، ڈاڑھی کے احکام سے متعلق مفتی  اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ  کا  رسالہ "جواہر الفقہ" 7 جلد میں موجود ہے،  اسی طرح حکیم الامت تھانوی صاحب کے افادات "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا مذاق اڑانا کفر ہے" ، نیز  مولانا حفظ الرحمن  اعظمی ندوی صاحب کی " ڈاڑھی کی شرعی حیثیت " ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب رحمہ اللہ کے بھی اس موضوع پر رسالے موجود ہیں، نیز اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں ، اور بازار میں دست یاب ہیں ، اس کے علاوہ بھی اس موضوع پر بہت سی کتابیں موجود ہیں ، ان کا مطالعہ کریں ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں