بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی منڈانے والے کی اذان و اقامت


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ اگر داڑھی منڈا شخص اقامت اور اذان کہہ دے تو اسکا لوٹانا واجب نہیں ،تو پھر اتنا سخت حکم کس لیے وارد کیا جاتا ہے کہ مساجد کے اندر لکھ کر لگا دیا جاتا ہے کہ ایسا شخص اذان و اقامت نہ کہے؟

جواب

واضح رہے کہ اذان چونکہ اسلامی شعار میں سے ہے۔لہٰذا مؤذن کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ وہ نیک صالح، اور سنتوں کا پابند ہو،با شرع اور متدین ہو ، داڑھی منڈوانا یا داڑھی کاٹ کر اسے  ایک مشت سے کم کرنا یہ دونوں  ناجائز ہے اور یہ اعلانیہ طور پر کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے،  اسی بناء پر داڑھی منڈانے یا کتروانے والے شخص کو اذان واقامت کیلئے مقرر کرنا مکروہ ہے؛ تاہم یہ امر اذان کی صحیح ہونے کی شرائط میں سے نہیں، بلکہ مؤذن کی صفات کمال میں سے ہے،یہی وجہ ہے کہ  اگر ایسے شخص نے بوقت ضرورت اذان واقامت کہہ دی  تو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی، البتہ ایسے فاسق شخص کو مستقل بنیاد پر اذان و اقامت کہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نیز اگر کسی مساجد میں اس طرح کا اعلان لگایا جاتا ہے کہ داڑھی منڈانے والا شخص اذان و اقامت نہ کہے تو یہ درست ہے۔

شامی میں ہے:

"أن المقصود الأصلي من الأذان في الشرع الإعلام بدخول أوقات الصلاة ثم صار من شعار الإسلام في كل بلدة أو ناحية من البلاد الواسعة على ما مر، فمن حيث الإعلام بدخول الوقت وقبول قوله لا بد من الإسلام والعقل والبلوغ والعدالة، وقدمنا قبل هذا الباب عن معين الحكام ما نصه: المؤذن يكفي إخباره بدخول الوقت إذا كان بالغا عاقلا عالما بالأوقات مسلما ذكرا ويعتمد على قوله. اهـ..... وأما من حيث إقامة الشعار النافية للإثم عن أهل البلدة فيصح أذان الكل سوى الصبي الذي لا يعقل؛..... لأن المؤذن الكامل هو الذي تقام بأذانه الشعيرة ويحصل به الإعلام، فيعاد أذان الكل ندبا على الأصح كما قدمناه عن القهستاني. ثم الظاهر أن الإعادة إنما هي في المؤذن الراتب، أما لو حضر جماعة عالمون بدخول الوقت وأذن لهم فاسق أو صبي يعقل لا يكره ولا يعاد أصلا لحصول المقصود تأمل."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ،كتاب الصلاة، باب الأذان،1 / 394، ط: سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"فصار الحاصل على هذا أن العدالة والذكورة والطهارة صفات كمال للمؤذن لا شرائط صحة فأذان الفاسق والمرأة والجنب صحيح حتى يستحق المؤذن معلوم وظيفة الأذان المقررة في الوقف ويصح تقرير الفاسق فيها."

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري، باب الأذان، أذان الجنب وإقامته وأذان المرأة والفاسق والقاعد والسكران، (1 / 278)، الناشر: دار الكتاب الإسلامي)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100848

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں