بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی مونڈھنے والے شخص کی امامت اور اس کے پیچھے پڑھی گئی نماز کا حکم


سوال

 ایک شخص نے ایک داڑھی کاٹنے والے کے پیچھے نماز پڑھی ،آیا نماز کا اعادہ ضروری ہے یا نہیں؟ اور کسی مجبوری کی بنا پر داڑھی کاٹنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

داڑھی رکھنا واجب ہےاور اسے  منڈوانا یا ایک مشت سے کم رکھنا گناہِ کبیرہ اور حرام ہے،  اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے ،جو شخص داڑھی کاٹ کر ایک مشت سے کم کرے یا مونڈے ایسے شخص کو  امام بنانااور  اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے ،  جب تک داڑھی ایک مشت نہ ہو جائے اس وقت تک وہ شخص امامت کا اہل نہیں ہے، باشرع امام کی موجودگی میں ایسے شخص کی اقتدا میں نماز نہ ادا کی جائے، البتہ اگر کبھی  ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھ لی تونماز ہو جائے گی،اور جب امام نہ ہو تو  بہتر یہ ہے کہ نمازیوں میں نیک صالح اور پوری ڈاڑھی رکھنے والا نماز پڑھائے یا کسی داڑھی والے کو خود آگے کردیا جائے، اور اگر مستقل امام ہی ایسا ہو یا خود امامت کروانے میں کوئی مانع ہو تو  ایسے  ڈاڑھی منڈے امام کی اقتدا  میں اگرچہ نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے،  لیکن اگر کہیں قریب میں کوئی اور ایسی مسجد نہ ہو جس میں باشرع امام ہو توایسی مجبوری میں  مسجد اور جماعت دونوں کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے اس کی اقتدا میں ہی نماز ادا کرلینی چاہیے۔

مسلم شریف میں ہے: 

(۱) '' عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، و السواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء".

( کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، رقم الحدیث: 261، ج:1،ص: 129، ط:البدر- دیوبند)

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم".

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج:2، ص: 418، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة".

(‌‌باب الإمامة، ج: ص: 562، ط: سعید)

و فیہ ایضاً

"(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع".

(‌‌باب الإمامة،ج:1، ص: 562، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ثم قال: فيكره ‌لهم ‌التقدم؛ ويكره الاقتداء بهم تنزيها؛ فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهو أفضل وإلا فالاقتداء أولى من الانفراد."

(‌‌باب الإمامة، ج:1، ص: 559، ط: سعید)

حاشیہ طحطاوی میں ہے:

"وکره إمامة الفاسق العالم لعدم اهتمامه بالدین، فتجب إهانته شرعاً، فلایعظم بتقدیمه للإمامة … ومفاده کون الکراهة في الفاسق تحریمیة."

(‌‌كتاب الصلاة، فصل في بیان الأحق بالإمامة، ص: 303، ط: دارالکتاب) 

حلبی کبیر   میں ہے:

"و لو قدّموا فاسقاً يأثمون بناء علي أن كراهة تقديمه كراهة تحريم ؛ لعدم اعتنائه بأمور دينه، و تساهله في الإتيان بلوازمه..."الخ

( كتاب الصلوة، الأولی بالإمامة، ص: 513 ،514، ط: سهيل اكيدمي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100996

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں