بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی کی شرعی مقدار


سوال

ایک شخص کہتا  ہے کہ داڑھی جتنی بھی ہو سنت پوری ہو جاتی ہے ، اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں۔ کیا وہ ٹھیک کہتا ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت ، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے ، رسول اللہ ﷺ  نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے ، اس لیے جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کتروا کر یا منڈوا کر ایک مشت سے  کم کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔ 

اور داڑھی کی شرعی  مقدار کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے یہاں سے داڑھی کی ابتدا ہے اور پورا جبڑا داڑھی کی حد ہے، اوربالوں کی لمبائی کے لحاظ سے  داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے،اس سے زائد بال ہوں  تو ایک مشت کی حد تک  چھوڑ کر زائد کو کاٹ سکتےہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں کسی شخص کا یہ کہنا کہ: "داڑھی جتنی بھی ہو سنت پوری ہو جاتی ہے اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں "  یہ درست نہیں ہے   ۔

  ایک مشت تک داڑھی کے رکھنے کا لازم ہونا،یہ امر  روایات میں صحابہ کرام سے ثابت ہے:

 دلائل درج ذیل ہیں : 

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خالفوا المشركين ‌أحفوا ‌الشوارب، وأوفوا اللحى".

(كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة: 1/ 222، ط:دار إحياء التراث العربي)

حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہےوہ فرماتے ہیں:    کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے "امام مسلم" اور اصحابِ سنن نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ( پیدائشی سنت ہیں) : ایک تو مونچھ خوب کتروانا، دوسری داڑھی چھوڑنا، تیسری مسواک کرنا، چوتھی پانی سے ناک صاف کرنا، پانچویں ناخن کا ٹنا، چھٹی انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ساتویں بغل کے بال اُکھاڑنا، آٹھویں زیرِ ناف کے بال مونڈنا، نویں پانی سے استنجا کرنا۔ زکریاؒ روای کہتے ہیں کہ مصعبؒ نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، مگر یہ کہ یہ کلی ہوگی۔

"عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء " قال زكريا: قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة".

(صحيح مسلم ۔1/ 223)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے "بزار" نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجوسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔

"عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا على المجوس جزوا الشوارب وأوفوا اللحى".

(مسند البزار = البحر الزخار ۔13/ 90)

مذکورہ  بالا احادیث مبارکہ میں صراحت سے داڑھی کے بڑھانے کا حکم ہے ، اور رسول اللہ ﷺ  کے صریح حکم کی خلاف ورزی نا جائز اور حرام ہے ۔

صحیح البخاری میں ہے:

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ وَفِّرُوا اللّحَى وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ ، أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ."

 ( صحيح البخاري،7/ 160، ط: السلطانية )

ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ، مونچھیں کترواؤ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مشت میں لیتے، جو مشت سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔

نیز  واضح رہے کہ کسی فعل کے حرام ہونے کے لیے قرآنِ مجید یا احادیثِ نبویہ میں لفظِ حرام کہہ کر اس کا حکم  "حرام"  بیان کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بعض مرتبہ اشارۃً ایک حکم مذکور ہوتاہے اور اس کا حکم حرام یا فرض کا درجہ رکھتاہے،یہ بات بھی قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً اور اشارۃً موجود ہے کہ  مسلمان اہلِ علم کا اجماع،اتفاق مستقل حجتِ شرعیہ ہے، یعنی اگر قرآن وحدیث میں کوئی حکم صراحتاً موجود نہ ہو،لیکن صحابہ کرام یا قرونِ اولیٰ کے اہلِ علم کسی آیت یا حدیث کی مراد پر متفق ہوجائیں تو یہ اجماع خود حجتِ شرعیہ ہے، اس اجماع سے ہی حکم کا درجہ متعین ہوجاتاہے،لہٰذا جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین وتبع تابعین اورفقہاء مجتہدین رحمہم اللہ قرآن وحدیث سے ایک مسئلے  (داڑھی صاف کرنے یا ایک مشت سے کم کرنے ) کا حکم سمجھ کر اس کے درجے پر متفق ہیں تو ان حضرات کا اجماع ہی اس کی حرمت کی دلیل ہے، خواہ قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں صراحتاً حرمت نہ بھی موجود ہو۔

فتح القدیر میں ہے:

"وأما ‌الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد."

«فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي» (باب ما یوجب القضاء والکفارۃ، ج:2، ص: 348 ط: دار الفکر،لبنان)

فتاوی شامی میں ہے :

"يحرم على ‌الرجل ‌قطع لحيته."

(‌‌‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع: ج: 6،ص: 407، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم."

(‌‌کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده: 2/ 418، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں