بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی کی مقدار بالاتفاق ایک مشت ہے


سوال

1۔ایک عرب حنفی شیخ نے  یہ کہا ہے کہ داڑھی کو ایک مشت رکھنا حنفی مذہب میں واجب نہیں ہے ،یہ ہندوستانی علماء کا قول ہے، کیا حنفی مذہب میں ایسا کوئی قول ہے؟

2۔کیا حنفی مذہب کے علاوہ کسی مذہب میں داڑھی ایک مشت سے کم رکھنے کی گنجائش ہے؟

3۔ اسی طرح ایسے قراء اور شیوخ جو داڑھی کترواتے ہیں ان کو اپنی مسجد میں بلانا کیسا ہے؟

4۔اگر کوئی ساتھی کترواتا ہے(ایک مشت سے کم کرتا ہے) تو اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز کا کیا حکم ہے ؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم رکھنا گناہِ کبیرہ اور حرام ہے،اس کے علاوہ یہ کہنا کہ " حنفی مذہب میں ایک مشت داڑھی رکھنا واجب  نہیں ہے، بل کہ یہ  ہندوستانی علماء کاقول ہے" ، یہ بات درست نہیں ہے ، کیوں کہ حنفی مذہب میں ا یک مشت داڑھی رکھنا واجب اور اس سے کم کرنا ناجائز وحرام ہے۔

2۔جی نہیں! چاروں ائمہ میں سے کسی امام کے نزدیک بھی ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا جائز نہیں ہے، یہ مسئلہ چاروں ائمہ کے نزدیک متفق علیہ ہے۔

3۔بلاشک و شبہ قرآن کریم کا سماع بھی ایک عبادت ہے، قرآنِ کریم کی تلاوت کے وقت غور سے سننے کا حکم خود قرآنِ کریم میں موجود ہے، تاہم قرآنِ کریم کی تلاوت کےلیےکسی بھی غیر شرعی امر کے ارتکاب کرنے کی شریعت بھی اجازت نہیں دیتی، لہذا اگر داڑھی والا قاری یا شیخ موجود ہو تو ڈاڑھی منڈے کو مدعو کرنے سے ان قراء کو مدعو کرنا بہتر ہے جو داڑھی ایک مشت سے کم نہیں کرتے ہیں۔

4۔ داڑھی والے امام کے ہوتے ہوئے بغیر داڑھی والے کے پیچھے نماز پڑھنا یا اس سے  امامت کروانا مکروہِ تحریمی ہے، تاہم اگر کسی نے اس کے پیچھے نماز پڑھی، تو اس کی نماز ہوجائے گی، اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور  اس کو  مسجد اور جماعت دونوں کی فضیلت کا ثواب مل جائے گا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ."﴿الأعراف: ٢٠٤﴾

فتح القدیر میں ہے:

"ويستحسن دهن الشارب إذا لم يكن من قصده الزينة لأنه يعمل عمل الخضاب، ولا يفعل لتطويل اللحية إذا كانت بقدر المسنون وهو القبضة....(قوله: وهو) أي القدر المسنون في اللحية (القبضة) بضم القاف، قال في النهاية: وما وراء ذلك يجب قطعه هكذا عن «رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه كان يأخذ من اللحية من طولها وعرضها» أورده أبو عيسى يعني الترمذي في جامعه، رواه من حديث عبد الله بن عمرو بن العاص.

فإن قلت: يعارضه ما في الصحيحين عن ابن عمر - رضي الله عنهما - عنه - عليه الصلاة والسلام - «أحفوا الشوارب وأعفوا اللحية» فالجواب: أنه قد صح عن ابن عمر راوي هذا الحديث أنه كان يأخذ الفاضل عن القبضة، قال محمد بن الحسن في كتاب الآثار: أخبرنا أبو حنيفة عن أبي الهيثم عن ابن عمر - رضي الله عنهما - " أنه كان يقبض على لحيته ثم يقص ما تحت القبضة " ورواه أبو داود والنسائي في كتاب الصوم عن علي بن الحسن بن شقيق عن الحسن بن واقد عن مروان بن سالم المقنع قال: رأيت ابن عمر - رضي الله عنه - يقبض على لحيته فيقطع ما زاد على الكف وقال: «كان النبي - صلى الله عليه وسلم - إذا أفطر قال: ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله تعالى» وذكره البخاري تعليقا فقال: " وكان ابن عمر - رضي الله عنه - إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته فما فضل أخذه " وقد روي عن أبي هريرة - رضي الله عنه - أيضا أسنده ابن أبي شيبة عنه: حدثنا أبو أسامة عن شعبة عن عمر بن أيوب من ولد جرير عن أبي زرعة قال " كان أبو هريرة - رضي الله عنه - يقبض على لحيته فيأخذ ما فضل عن القبضة " فأقل ما في الباب إن لم يحمل على النسخ كما هو أصلنا في عمل الراوي على خلاف مرويه مع أنه روي عن غير الراوي.

وعن النبي - صلى الله عليه وسلم - يحمل الإعفاء على إعفائها من أن يأخذ غالبها أو كلها، كما هو فعل مجوس الأعاجم من حلق لحاهم كما يشاهد في الهنود وبعض أجناس الفرنج، فيقع بذلك الجمع بين الروايات، ويؤيد إرادة هذا ما في مسلم عن أبي هريرة - رضي الله عنه - عن النبي - عليه الصلاة والسلام -: «جزوا الشوارب وأعفوا اللحى خالفوا المجوس» فهذه الجملة واقعة موقع التعليل .

وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب ما يوجب القضاء والكفارة، ج:2، ص:347-348، ط:دار الفكر)

"العرف الشذي شرح ترمذي" میں ہے:

"وأما تقصير اللحية بحيث تصير قصيرة من القبضة فغير جائز في المذاهب الأربعة."

(‌‌كتاب الآداب، ‌‌باب ما جاء في تقليم الأظفار، ج:4، ص:162، ط:دار التراث العربي)

’’حلبی کبیر ‘‘  میں ہے:

"و لو قدّموا فاسقاً يأثمون بناء علی أن كراهة تقديمه كراهة تحريم؛ لعدم اعتنائه بأمور دينه، و تساهله في الإتيان بلوازمه..."الخ

( كتاب الصلاة، الأولی بالإمامة، ص:513-،514 ط: سهيل اكيدمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم."

(کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج: 2، ص: 418، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة".

و في الرد: (قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع."

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج: 1، ص: 562، ط: سعيد)

وفيه ايضاً:

"وأما ‌الفاسق ‌فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة، فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا."

(‌‌كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 1، ص:560، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں