بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھے کاٹنے والے کے پیچھے نماز ادا کرنا


سوال

شریعتِ اسلامیہ میں فاسق کس کو کہتے ہیں ؟

اگر کوئی شخص مسلسل داڑھی کاٹتاہو تو کیا اس کے پیچھے اقتدا  کرنے والوں کی نماز حرام ہے یا مکروہ تحریمی یا پھر مکروہ تنزیہی ہے؟

جواب

’’فاسق‘‘  و ہ شخص کہلاتا ہے جو  گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہو یا صغیرہ گناہوں پر اصرار کرتا ہو۔

داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم رکھنا گناہِ کبیرہ اور حرام ہے، داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم کروانا فسق ہے۔ جو شخص داڑھی کاٹ کر ایک مشت سے کم کرے یا مونڈے ایسے شخص کو  امام بنانا مکروہِ  تحریمی ہے، اگرتوبہ کرلے تو  جب تک داڑھی ایک مشت نہ ہو جائے اس وقت وہ شخص امامت کا اہل نہیں ہے۔

لہذا صالح اور متدین متبعِ  سنت امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے،  جو شخص مسلسل داڑھی ایک مشت سے کم کرے  یا مونڈے ایسے شخص کو اپنے اختیار سے امام بنانا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے، البتہ اگر کوئی متدین امام میسر نہ ہو اور ایسا شخص خود امامت کے لیے آگے بڑھ گیا ہو یا پہلے سے یہ شخص امام  ہو اوراس  شخص کی اقتدا نہ کرنے کی صورت میں جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اس شخص کے پیچھے نماز ادا کرنا انفراداً نماز ادا کرنے سے بہتر ہے۔ نماز بہر حال ایسے شخص کی اقتدا میں ہوجائے گی، واجب الاعادہ نہیں ہوگی۔لیکن ایسے شخص کی اقتدا  کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔

کفایت المفتی میں ہے :

’’حدیث میں تو داڑھی بڑھانے کا حکم اور تاکید آئی ہے ، اور اس کی مقدار بتانے کے لیے کوئی قولی روایت آں حضرت ﷺسے مروی نہیں  ہے،  ہاں فعلی روایت صحابہ کرام کا یہ طرزِ عمل مروی ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کو کتروادیتے تھے، اور ایک مشت کے اندر کتروانے کی کوئی سند نہیں  ہے، اس لیے فقہائے کرام نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیا ہے اور اس سے کم رکھنے والے کو تارک واجب ہونے کی بنا پر فاسق کہاہے‘‘۔(9/176دارالاشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’(الجواب)جو شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو یا گناہ صغیرہ پر اصرار کرتا ہو ایسا شخص فاسق ہے، اور فاسق مردو و الشہادت ہوتاہے یعنی اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی...‘‘۔(1/161 ط: دارالاشاعت)

روح المعاني ـ (13 / 297):

"والفاسق الخارج عن حجر الشرع من قولهم : فسق الرطب إذا خرج عن قشرة ، قال الراغب : والفسق أعم من الكفر ويقع بالقليل من الذنوب والكثير لكن تعورف فيما كانت كثيرة ، وأكثر ما يقال الفاسق لمن التزم حكم الشرع وأقر به ثم أخل بجميع أحكامه أو ببعضها ، وإذا قيل للكافر الأصلي فاسق فلأنه أخل بحكم ما ألزمه العقل واقتضته الفطرة".

التفسير المنير للزحيلي - (26 / 225):

"فاسِقٌ خارج عن حدود الدين أو الشرع، مأخوذ من قولهم: فسق الرطب: إذا خرج من قشره، والفسوق: الخروج من الشيء والانسلاخ منه".

مفردات القرآن ـ للراغب ـ نسخة محققة - (1 / 636):

"فسق:

فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع ، وذلك من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الكفر. والفِسْقُ يقع بالقليل من الذّنوب وبالكثير ، لكن تعورف فيما كان كثيرا ، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حكم الشّرع وأقرّ به ، ثمّ أخلّ بجميع أحكامه أو ببعضه ، وإذا قيل للكافر الأصليّ : فَاسِقٌ ، فلأنّه أخلّ بحكم ما ألزمه العقل واقتضته الفطرة ، قال اللّه تعالى : فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ".

تفسير السراج المنير - (1 / 41):

"وأمّا الفاسق في الشرع فهو الخارج عن أمر الله بارتكاب كبيرة أو إصرار على صغيرة ولم تغلب طاعاته على معاصيه ولايخرجه ذلك عن الإيمان إلا إذا اعتقد حل المعصية سواء أكانت كبيرة أم صغيرة".

مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح - (1 / 107):

"العدل : المراد بالعدل عدل تام الرواية ، وهو المسلم البالغ والعاقل السالم من الفسق بارتكاب كبيرة أو إصرار على صغيرة".

حاشية على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح - (1 / 204):

"قوله: ( ولذا كره إمامة الفاسق ) أي لما ذكر من قوله حتى إذا كان الأعرابي الخ فكراهته لأفضلية غيره عليه والمراد الفاسق بالجارحة لا بالعقيدة لأن ذا سيذكر بالمبتدع والفسق لغة خروج عن الاستقامة وهو معنى قولهم خروج الشيء عن الشيء على وجه الفساد وشرعا خروج عن طاعة الله تعالى بارتكاب كبيرة قال القهستاني أي أو إصرار على صغيرة وينبغي أن يراد بلا تأويل وإلا فيشكل بالبغاة وذلك كتمام ومراء وشارب خمر اه  قوله: ( فتجب إهانته شرعًا فلا يعظم بتقديمه للإمامة ) تبع فيه الزيلعي ومفاده كون الكراهة في الفاسق تحريمية".

حاشية رد المحتار على الدر المختار (1/ 559):

"قال: فكره لهم التقدم، ويكره الاقتداء بهم تنزيهاً، فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهو أفضل، وإلا فالاقتداء أولى من الانفراد".

''الدر المختار '' میں ہے:

"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم". (٢/ ٤١٨، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة".

و في الشامية:

"(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع". (شامي: ١/ ٥٦٢، ط: سعيد) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں