بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی کاٹنے کا حکم


سوال

داڑھی کاٹنے کے بارے میں فتوی بتا دیں۔

جواب

داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور  مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا  حکم دیا ہے، اس لیے  جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا  حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خالفوا المشركين ‌أحفوا ‌الشوارب، وأوفوا اللحى".

(كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، ج:1، ص:222، ط:دار إحياء التراث العربي)

سنن ابو داؤد ميں هے:

"حدثنا مروان يعني ابن سالم المقفع، قال: «رأيت ابن عمر يقبض على لحيته، فيقطع ‌ما ‌زاد ‌على الكف."

(كتاب الصوم، باب القول عند الإفطار ، ج:2، ص:306، ط: دار الفكر)

المصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن أبي زرعة، قال: «كان أبو هريرة ‌يقبض ‌على ‌لحيته، ثم يأخذ ما فضل عن القبضة."

(كتاب الأدب، ما قالوا في الأخذ من اللحية، ج:5، ص:225، ط: مكتبة الرشد الرياض)

فتاوی شامی میں ہے:

"يحرم على ‌الرجل ‌قطع لحيته."

(‌‌‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:407، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم

(قوله: وأما الأخذ منها إلخ) بهذا وفق في الفتح بين ما مر وبين ما في الصحيحين عن ابن عمر عنه - صلى الله عليه وسلم - «أحفوا الشوارب واعفوا اللحية» قال: لأنه صح عن ابن عمر راوي هذا الحديث أنه كان يأخذ الفاضل عن القبضة، فإن لم يحمل على النسخ كما هو أصلنا في عمل الراوي على خلاف مرويه مع أنه روي عن غير الراوي وعن النبي - صلى الله عليه وسلم - يحمل الإعفاء على إعفائها عن أن يأخذ غالبها أو كلها كما هو فعل مجوس الأعاجم من حلق لحاهم، ويؤيده ما في مسلم عن أبي هريرة عنه - صلى الله عليه وسلم - «جزوا الشوارب واعفوا اللحى خالفوا المجوس» فهذه الجملة واقعة موقع التعليل، وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد اهـ ملخصا."

(‌‌کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده،ج:2، ص:418، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں