بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی ایک مشت تک رکھنا واجب ہے یا سنت؟


سوال

عرض یہ تھی کہ میں ایک پیر صاحب کا بیان سن رہا تھا، جس میں انہوں نے حضرت قاری عبدالباسط عبدالصمد کے ساتھ بتائے اپنی زندگی کے چند ایام کا ذکر فرمایا اور اس کے اندر انہوں نے اہل مصر کے داڑھی نہ رکھنے کی وجہ بھی بیان کی۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ :"اہل مصر کے علماء کو ایک علمی مغالطہ لگا ہے کہ انہوں نے داڑھی کو مرد اور عورت کے درمیان فرق سمجھ لیا ہے کہ یہ محض عورت اور مرد کے درمیان فرق کرنے کے لیے ہے ،شریعت کی طرف سے اس کا وجوب نہیں۔ لیکن ہمارے علماء کو اللہ نے صحیح جگہ پر پہنچایا ہے اور وہ یہ ہے کہ داڑھی رکھنا تو واجب ہے لیکن اسے ایک مشت تک بڑھانا سنت ہے اور یہی صحیح مسئلہ ہے"۔ یہ حضرت پیر صاحب کے الفاظ ہیں اور ان کا یہ کلپ یوٹیوب پر اب بھی موجود ہے۔ اب میرا استفسار یہ تھا کہ ہم نے تو سن رکھا ہے کہ داڑھی ایک مشت تک بڑھانا واجب ہے جبکہ پیر صاحب نے فرمایا کہ ہمارے علماء کے نزدیک داڑھی ایک مشت رکھنا سنت ہے اور یہی صحیح مسئلہ ہے۔ براہ کرم اس کی وضاحت کیجیئے۔

جواب

داڑھی  تمام انبیاءِ  کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور  مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کا اپنی امت کو  حکم دیا ہے، اس لیے  جمہور علماءِ  امت کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا  حرام اور کبیرہ گناہ ہے اور  اس کا  مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔

ایک مشت تک داڑھی کے رکھنے کا لازم ہونا،یہ امر  روایات میں صحابہ کرام سے ثابت ہے ۔جس کے دلائل درج ذیل ہیں :

 "عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا على المجوس جزوا الشوارب وأوفوا اللحى".

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے "بزار" نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجوسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔

(مسند البزار = البحر الزخار،ج:13،ص:90،رقم:6446،ط:مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)

" عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: جُزُّوا الشوارب، وأرخوا اللحی، خالِفوا المجوس".

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے    کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

(صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة،ج:1،ص:222،رقم:260،ط:دار إحياء التراث العربي بیروت)

"عن ابن عمر،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (خالفوا المشركين: وفروا اللحى، وأحفوا الشوارب). وكان ابن عمر: إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته، فما فضل أخذه"

ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ، مونچھیں کترواؤ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مشت میں لیتے، جو مشت سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔ 

(صحيح البخاري،کتاب اللباس،باب تقلیم الاظفار، ج:5،ص2209،رقم: 5553،ط:دار ابن كثير،دار اليمامة دمشق))

مذکورہ بالا احادیث  میں صراحت سے داڑھی کے بڑھانے کا حکم ہے، اور رسول اللہ  ﷺ  کے صریح حکم کی خلاف ورزی ناجائز اور حرام ہے۔

اسی معنی کی مزید احادیث درج ذیل ہیں:

" عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی".

( جامع الترمذي، أبواب الأدب، باب ماجاء في إعفاء اللحیة،ج:5،ص:95،رقم:2763،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر) 

"وعن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: انهکوا الشوارب وأعفوا اللحی".

(صحیح البخاري، کتاب اللباس، باب إعفاء اللحی،ج:5،ص:2209،رقم:5554،ط:دار ابن كثير،دار اليمامة دمشق)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"وقال العلائي في كتاب الصوم قبيل فصل العوارض: إن الأخذ من اللحية وهي دون القبضة كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال لم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود والهنود ومجوس الأعاجم اهـ فحيث أدمن على فعل هذا المحرم يفسق، وإن لم يكن ممن يستخفونه ولايعدونه قادحًا للعدالة والمروءة فكلام المؤلف غير محرر، فتدبر".

(کتاب الشھادۃ،ج:1،ص:329،ط:دار المعرفة)

لہذا ایک مشت تک داڑھی رکھنا واجب ہے،اس سے کم کرنا جائز نہیں۔مذکورہ پیر صاحب کی بات کا مقصد اگر یہ تھا کہ مطلقاداڑھی رکھنے سے وجوب ادا ہوجائے گا،اگر چہ ایک مشت سے کم ہوتو یہ درست نہیں اور اگر ان کا مقصد یہ تھا کہ داڑھی کے وجوب کی ادائیگی کا مسنون طریقہ ایک مشت تک رکھنا ہے تو یہ بات درست ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں