بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دفتر کے کام سے شرعی مسافت پر جا کر قصر پڑھنا


سوال

میرے والدین ساہیوال میں رہتے ہیں، میرا دفتر میرے گھر سے 200 کلومیٹر دور ملتان شہر میں ہے، جب میں گھر آؤں جو کہ میں ہر ہفتے دو دن کے لیے گھر آتا ہوں اور کبھی کبھار تین دن کے لیے تو میں فرض نماز کتنی رکعت پڑھوں یعنی ظہر کے دو فرض پڑھوں گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ جب بھی اور جتنے دن کے لیے بھی اپنے گھر (ساہیوال) آئیں گے، آپ پوری نماز پڑھیں گے، یعنی ظہر کی چار رکعت ہی پڑھیں گے۔ باقی آپ کے دفتر کے بارے میں حکم یہ ہے کہ  اگر آپ نے  ایک دفعہ بھی دفتر  میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرکے وہاں قیام کیا ہو تو  دفتر والا علاقہ  آپ کا وطنِ اقامت بن جائے گا، اور جب تک دفتر کے کام کے سلسلے میں آپ کا وہاں  آنا جانا لگا رہے گا اور کمرہ یا سامان وہاں موجود ہوگا  اس وقت تک آپ وہاں پر پوری نماز پڑھیں گے، چاہے تین، چار دن کا قیام ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر آپ وہاں پندرہ دن یا اس سے زیادہ  قیام کی نیت سے نہیں رہے ہوں تو ایسی صورت میں پندرہ دن سے کم کے لیے وہاں جانے کی صورت میں آپ مسافر ہوں گے اور قصر نماز پڑھیں گے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ويبطل الوطن الأصلي بمثله لا السفر ووطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي) لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلا يصلح مبطلا له وروي أن عثمان رضي الله عنه كان حاجا يصلي بعرفات أربعا فاتبعوه فاعتذر وقال إني تأهلت بمكة وقال النبي من تأهل ببلدة فهو منها والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله لأنه لو لم ينتقل بهم ولكنه استحدث أهلا في بلدة أخرى فإن الأول لم يبطل ويتم فيهما وقيد بقوله بمثله لأنه لو باع داره ونقل عياله وخرج يريد أن يتوطن بلدة أخرى ثم بدا له أن لا يتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدة غيرها فمر ببلده الأول فإنه يصلي أربعا لأنه لم يتوطن غيره وفي المحيط ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له وقيل تبقى وطنا له لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعًا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ا هـ وفي المجتبى نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر".

( كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲/ ۱۳٦ ط: سعيد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 147):

"كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ... وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر".

 (باب صلاۃ المسافر ،ج:۴/ ۱۱۲ ،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں