بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈرائیونگ لائیسنس بنوانے کے لئے ملازمین کو پیسے دینا


سوال

ڈرائیونگ لا ئسنس   بنوانے کے لیے اکثر سرکاری ملازمین پیسے مانگتے ہیں جو ڈرائیونگ لائسنس کی حکومت کی جانب سے طے شدہ فیس سے زیادہ ہوتے ہیں ،اس کے علاوہ بعض اوقات وہ ملازمین دیگر کوائف اور ڈرائیونگ ٹیسٹ میں تنگ بھی کرتے ہیں ایسی مجبوری میں اگر ڈرائیونگ لائسنس نہ بنایا جائے تو چالان کا خطرہ رہتا ہے اور اگر بنوانا ہو تو زیادہ پیسے دینے پڑتے ہیں ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  ڈرائیونگ کے لیے قانونی طور پر مطلوب شرائط پر پورا اترنے کے باوجود بھی سرکاری آفس کا عملہ زیادہ پیسے،رشوت کے بغیر  لائسنس جاری نہ کرے  اور لا  ئسنس بنوانے       والے میں ڈرائیونگ کی اہلیت اور قابلیت بھی ہو تو  ا  یسی مجبوری  کی صورت رشوت کے طورپررقم    دینے کی گنجائش ہوگی ، اس صورت میں گناہ رشوت لینے والے عملے پر ہوگا ۔

اور اگر  رشوت دیے بغیر لا ئسنس بنانا  ممکن ہو یا لا  ئسنس   بنوانے  والے   شخص میں ڈرائیونگ کی اہلیت اور قابلیت موجود نہ ہو تو ان دونوں صورتوں میں عملے کو کچھ دینا رشوت شمار ہوگا جوکہ ناجائز اور حرام ہے ،اور اس صورت میں رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں گنا ہ گار ہوں گے ۔

 مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌الراشي ‌والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلما فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة ; لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلا يجوز لهم الأخذ عليه، كذا ذكره ابن الملك، وهو مأخوذ من كلام الخطابي إلا قوله: وكذا الآخذ، وهو بظاهره ينافيه الحديث الأول من الفصل الثالث الآتي. قال التوربشتي: وروي أن ابن مسعود أخذ في شيء بأرض الحبشة فأعطى دينارين حتى خلي سبيله (رواه أبو داود، وابن ماجه)۔"

(کتاب الامارۃ والقضاء،باب رزق الولاۃ و ھدایاھم،2637/6،رقم،3753،ط،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

’’دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع ۔"

"کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،423/6،ط،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں