بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو القعدة 1446ھ 24 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

داڑھی رکھنے کی منت ماننا


سوال

کیا یہ منت درست ہے کہ اگر میرا یہ کام  ہو گیا تو میں داڑھی رکھوں گا؟

جواب

واضح رہے کہ داڑھی تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور  مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے،  ا س لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا  حکم دیا ہے، اس لیے  جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا  حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہےاور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ’’امام مسلم ‘‘اور’’ اصحابِ سنن‘‘نے روایت کیا ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ( پیدائشی سنت ہیں) : ایک تو مونچھ خوب  کتروانا، دوسری داڑھی چھوڑنا، تیسری مسواک کرنا، چوتھی پانی سے ناک صاف کرنا، پانچویں ناخن کا ٹنا، چھٹی انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، ساتویں بغل کے بال اُکھاڑنا، آٹھویں زیرِ ناف کے بال مونڈنا، نویں پانی سے استنجا کرنا،زکریاؒ روای کہتے ہیں کہ مصعبؒ نے کہا: میں دسویں چیز بھول گیا، مگر یہ کہ یہ کلی ہوگی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے    کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

جب داڑھی رکھنا واجب ہے تو  مسلمان مرد کو داڑھی رکھنی چاہیے، کسی کام کے ہونے تک اس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ نذر (منت) کے منعقد اور لازم ہونے کے لیے مندرجہ ذیل  شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1- نذر  کے الفاظ زبان سے ادا کیے جائیں، صرف دل  میں ارادہ کرنے سے نذر  منعقد نہیں ہوتی۔

2- نذر  کے الفاظ میں التزام (یعنی کسی  غیر لازم چیز کو اپنے اوپر لازم کرنے) کا معنیٰ پایا جائے۔ 

3- نذر  کے الفاظ "ان شاء اللہ" سے خالی ہوں، لہٰذا اگر کسی نے نذر کے الفاظ زبان سے  ادا کرتے ہوئے ساتھ  میں "ان شاء اللہ" بھی کہہ دیا تو نذر منعقد نہیں ہوگی۔

4- نذر اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے،  پس غیر اللہ کے نام کی نذر درست نہیں۔

5- نذر صرف عبادت کے کام کی ہو، پس جو کام عبادت نہیں ہیں اُن کی منت ماننا درست نہیں ہے۔

6- عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس میں کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی منت ماننا  بھی صحیح نہیں ہے۔

7- نیز وہ عبادت فی الحال بندے پر فرض یا واجب نہ ہو، لہٰذا یہ نذر ماننا کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو آج ظہر کی نماز پڑھوں گا، یا روزانہ ظہر کی نماز پڑھوں گا، درست نہیں ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں   یہ کہناکہ میرا یہ کام ہوگیا ہے  تو میں داڑھی رکھوں گا،یہ منت درست نہیں،البتہ داڑھی جمہور علمائے کے نزدیک  واجب ہے،منت کے بغیر ہی اس کا  رکھنا لازم ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عشر من ‌الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء قال زكرياء: قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة."

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « جزوا ‌الشوارب، وأرخوا اللحى، خالفوا المجوس."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب خصال الفطرة، 153/1، ط: دار الطباعة العامرة)

بدئع الصانع میں ہے:

"(ومنها) أن لا يكون ‌مفروضا ولا ‌واجبا، فلا يصح النذر بشيء من الفرائض سواء كان فرض عين كالصلوات الخمس وصوم رمضان، أو فرض كفاية كالجهاد وصلاة الجنازة، ولا بشيء من الواجبات سواء كان عينا كالوتر وصدقة الفطر والعمرة والأضحية، أو على سبيل الكفاية كتجهيز الموتى وغسلهم ورد السلام ونحو ذلك؛ لأن إيجاب الواجب لا يتصور."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، 90/5، ط: دار الكتب العلمية)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

"و قال العلائي في كتاب الصوم قبيل فصل العوارض: إن الأخذ من ‌اللحية و هي دون القبضة كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال لم يبحه أحد وأخذ كلها فعل يهود والهنود ومجوس الأعاجم اهـ فحيث أدمن على فعل هذا المحرم يفسق وإن لم يكن ممن يستخفونه ولا يعدونه قادحا للعدالة والمروءة."

(كتاب الشهادة، ج: 1، ص: 329، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101709

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں