کیا صدقہ کے جو پیسے جمع کیے ہوں ان کو کسی دربار میں استعمال کر سکتے ہیں دربار کا کام ہو رہا ہے؟
اگر دربار سے مراد دربارِ خداوندی ( مسجد) ہو تو اس کی تعمیر میں صدقاتِ نافلہ (یعنی جو زکوۃ، کفارہ، فطرہ، فدیہ کی رقم کے علاوہ ) کی رقم لگانا نہ صرف جائز ہے، بلکہ ایک افضل عمل اور صدقہ جاریہ ہوگا، اور اگر دربار سے مراد کسی مزار پر غیر شرعی تعمیر ہے، یا اس کے بارے میں یقین بھی ہے کہ وہ دربار مختلف محرّمات، منکرات، بدعات، معاصی کی آماج گاہ ہے جیسے کہ آج کل مشاہدہ ہے،تو اس میں صدقہ کی رقم دینا گناہوں پر معاونت کے قبیل سے ہے، لہذا ایسی جگہ کی تعمیر میں صدقاتِ نافلہ دینا جائز نہیں ہے۔ ملحوظ رہے صدقاتِ واجبہ جیسے زکوۃ، فطرہ، کفارہ، فدیہ کی رقم مسجد کی تعمیر میں لگانا جائز نہیں ہے۔
أحكام القرآن للجصاص میں ہے:
"وقَوْله تَعَالَى: {وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى} يَقْتَضِي ظَاهِرُهُ إيجَابَ التَّعَاوُنِ عَلَى كُلِّ مَا كَانَ طَاعَةً لِلَّهِ تَعَالَى; لِأَنَّ الْبِرَّ هُوَ طَاعَاتُ اللَّهِ. وقَوْله تَعَالَى: {وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْأِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} نَهْيٌ عَنْ مُعَاوَنَةِ غَيْرِنَا عَلَى مَعَاصِي اللَّهِ تَعَالَى."
(باب حد الامة والعبد، مطلب البيان من الله تعالى على وجهين، ج:2، ص:381، ط:دارالكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144207200947
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن