بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دراز ایپ یا انٹرنيٹ پر کسی چیز کا اشتہار دے کر بیچنا


سوال

چیزوں کو جیسا کہ موبائل، کمپوٹر، لیپ ٹاپ،الیکڑانکس وغیرہ کا ""دراز"یا  "انٹرنیٹ" پر تصویر/اشتہار دینا ،جو ہمارے پاس نہ ہو، جب گاہک آئے تو بازار سے خریدنا اور پھر کسٹمر کو آن لائن بیچنا، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس کی کمائی حلال ہوگی یا حرام؟

جواب

واضح رہے کہ  ایک شخص کسی دوسرےکو وہی چیزبیچ سکتا ہے جو بیچتے وقت  اس کی ملکیت  اور  قبضہ میں موجود  ہوتی ہے،    لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  "دراز" یا "انٹرنیٹ " پرصرف تصویر یا اشتہار دے کر گاہک کو کوئی چیز بیچنا اور بعد میں وہ چیزکسی  دکان وغیرہ سے خرید کردینا جائز نہیں ہے  ،اس لیے کہ بائع (بیچنے والے) کی ملکیت میں مبیع(فروخت کردہ چیز) موجود نہیں ہے ،بلکہ معدوم ہے اور معدوم چیز کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے،اس قسم کی بیع(سودا) کی کمائی حلال نہیں ہے،البتہ اگر فروخت  کنندہ خریدار سے  یہ کہہ دے کہ مطلوبہ چیز تمہیں اتنے کی پڑے گی اور وہ اس پر راضی ہوجائے تو اس صورت میں  فروخت کنندہ اس چیز کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے خریدار  پر فروخت کرے تو یہ درست ہےیا بائع( فروخت کنندہ)خریدار سے وعدۂ بیع کرلے کہ میں تمہیں یہ چیز   اتنی قیمت میں فروخت کروں گا تو یہ صورت بھی جائز ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده،و 'نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم".

(فصل: وأما الذی یرجع إلی المعقود علیہ،340/4، ط: مکتبۃ الوحیدیۃ)

الدر المختار میں ہے:

"(ويقول) البائع (‌قام ‌علي بكذا وكذا يضم إلى رأس المال ما يوجب زيادة فيه حقيقة أو حكما أو اعتاده التجار) كأجرة السمسار، هذا هو الأصل."

(باب المضارب يضارب،549،ط: دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں