بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پروڈکٹ رینکنگ کا شرعي حکم


سوال

(DARAZ) ایک آن لائن کاروبار کے متعلق شرعی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ  دراز پر بیچنے کے لیے جب ہم کوئی پروڈکٹ اپ لگاتے ہیں تو وہ آخری صفحے، یا یوں کہے کہ کئی ہزار یا لاکھوں پروڈکٹس کے درمیان کہیں ہوتاہے، جو لوگوں کو عام طور پر نظر نہیں آتا، اس کی مثال ایسی ہے کہ جب آپ گوگل پر کچھ سرچ کرتے ہیں تو جو چیز  اوپرآتی ہے، آپ وہی چیز دیکھ لیتے ہیں، ایسی طرح جو پروڈکٹ  کئی ہزار پروڈکٹس کے درمیان  ہوتا ہے، اسے آپ نہیں دیکھ پاتے اور جب دیکھ نہیں پاتے تو خریدو گے کیسے؟ تو صارفین جب خریدنے کےلیے آتے ہیں تو وہ شروع کے دس سے پندرہ پروڈکٹس میں سے کوئی ایک منتخب کرکے خرید لیتے ہیں، اور دراز پر وہی پروڈکٹس اوپر آجاتا ہے، جس پر زیادہ سے زیادہ  (REVIEWS) ری ویوز  ہو یا پروڈکٹ کے متعلق سوال و جواب ہو،  اب جب ہم نئے سیلرز کوئی چیز فروخت کرتے ہیں، مثلاً ہینڈز فری، تو اگر کوئی آدمی ہینڈ فری لکھ کر سرچ کرے گا  تو ہمارا پروڈکٹ تب بھی شو نہیں ہوگا، کیوں کہ ہماری پروڈکٹ پر ری ویوز صفر(0) ہے، اور کسٹمر شروع والے پروڈکٹ میں (جس پر ری ویوز زیادہ ہے) سے کسی ایک کوپسند کرکے لےلے گا، اب جب کسٹمر نے ہمارا پروڈکٹ دیکھا ہی نہ ہو تو وہ خریدے گا کیسے، اور اگر کوئی خریدےگا نہیں تو ری ویوز ميں کیسے آئیں گے؟ اور اگر کسی نے اتفاقی طور پر دیکھ بھی لیا تب بھی کوئی نہیں خریدے گا، کیوں کہ ہمارے پروڈکٹ پر ری ویوز نہیں ہیں، اور  بغیر ری ویوز والی چیز کا بکنا ممکن نہیں۔

لہٰذا ہم نئے سیلرز  اپنے پروڈکٹ کو شروع میں لانے کےلیے پروڈکٹ رینکنگ (PRODUCT RANKING) کرواتے ہیں، یعنی ہم ایک خاص آدمی کو کچھ پیسے دیتے ہیں، جس کے بدلے میں وہ ہمارے  پروڈکٹ  پر ری ویوز کے کا اضافہ کردیتا ہے، بغیر پروڈکٹ کو استعمال کیے اور خود ہی سوالات کرتا ہے، جس سے ہماری پروڈکٹس  اوپر آجاتی ہے، یا کسٹمر کو نظر آنے لگتی ہے، اور اس طرح ہمیں آرڈرز آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ  ری ویوز بڑھانے کےلیے مذکورہ طریقہ کار(پروڈکٹ رینکینگ)  اختیار کرنا اور ان کو پیسے دینا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اس   طرح  مصنوعی  طریقے سے پروڈکٹ کو اوپر لانا ایک تو ناجائز اشتہار بازی کی ایک صورت ہے اور دوسرے اس میں خریدار کو دھوکا دینا ہے۔ دھوکا دہی کے پہلو سے یہ عمل "بیعِ نجش"  کی طرح ہے جس میں   خریداری مقصد نہیں ہوتی  ہے، لیکن قیمت بڑھا چڑھا کربیان کی جاتی ہے،  تاکہ خریدار دھوکے  میں مبتلا ہو یا کسی چیز کے متعلق اپنا باخبر ہونا ظاہر کردیا جاتا ہے ،  تاکہ خریدار اسے خریدے یا زیادہ قیمت پر خریدے ۔

آج کل  اگرسمعی وبصری آلات پر کسی چیز  کے متعلق ایسے اوصاف کا تذکرہ کیا جائے،  جو اس میں نہ ہوں  یا کسی پروڈکٹ کے متعلق سمعی وبصری آلات پرکوئی  ایسا عمل کیا جائے،  تاکہ خریدار خریدنے پر آمادہ ہو، تو وہ بھی "نجش" کی جدید صورتوں میں داخل ہے اور ناجائز ہے۔"بیع نجش" کی ممانعت تو احادیث شریفہ  میں صراحت کے ساتھ آئی ہے،  لہذا اس کی رو  سےپروڈكٹ رینکنگ بڑھانے کا یہ عمل ناجائز اور حرام ہے، مگر اس کے ساتھ قرآنِ کریم کی رو سے بھی یہ عمل   ناجائز ہے، قرآن پاک کے مطابق  دلی رضامندی کے بغیر دوسرے کا مال کھانا ناجائز ہے، جو رضامندی غلط تاثر دے کریا جھوٹ ،فریب ، دھوکا یا جبرواکراہ کے ذریعے حاصل کی جائے وہ  بھی  ناجائز ہے، رینکنگ بڑھانے کے اس عمل میں ظاہر ہے کہ غلط تاثر دے کر خریدار  کی رضامندی حاصل کی جاتی ہے،   اس  لیے ازروئے شرع یہ عمل حرام ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"يَٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوْا لَاتَأْكُلُوْا ‌أَمْوَالَكُم بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّآ أَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ".

(سورة النساء: ايت:29)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة؛ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن التلقي للركبان. وأن يبيع حاضر لباد. وأن تسأل المرأة طلاق أختها. وعن النجش. والتصرية. وأن يستام الرجل على سوم أخيه".

"حدثنا يحيى بن يحيى. قال: قرأت على مالك عن نافع، عن ابن عمر؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن النجش".

(كتاب البيوع، باب تحريم بيع الرجل علي بيع اخيه،وتحريم النجش، ج:3، ص:1155، ط:دار احياء)

وفیہ ايضاً:

'عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام. فأدخل يده فيها. فنالت أصابعه بللا. فقال "ما هذا يا صاحب الطعام؟ " قال: أصابته السماء. يا رسول الله! قال " أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ من غش فليس مني".

(كتاب الإيمان، باب قول النبي "من غشنا فليس منا"، ج:1، ص:99، رقم:101،  ط:دار احياء)

فتاوى شامي میں ہے:

"(و) كره (النجش) بفتحتين ويسكن: أن يزيد ولا يريد الشراء أو يمدحه بما ليس فيه ليروجه ويجري في النكاح وغيره".

وفي الرد:

"(قوله وكره النجش) لحديث الصحيحين «لا تتلقى الركبان للبيع ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ‌ولا ‌تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد» فتح".

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب أحكام نقصان المبيع فاسدا، ج:5، ص:101، ط:سعيد)

قرارات وتوصيات مجمع الفقه الإسلامي الدولي ميں هے:

النجش حرام، ومن صوره :

أ‌- أن يزيد في ثمن السلعة من لا يريد شراءها ليغري المشتري بالزيادة .

ب- أن يتظاهر من لا يريد الشراء بإعجابه بالسلعة وخبرته بها، ويمدحها ليغرّ المشتري فيرفع ثمنها .

ج – أن يدعي صاحب السلعة، أو الوكيل، أو السمسار، ادعاء كاذباً أنه دفع فيها ثمن معين ليدلس على من يسوم .

د – ومن الصور الحديثة للنجش المحظورة شرعاً اعتماد الوسائل السمعية، والمرئية، والمقروءة، التي تذكر أوصافاً رفيعة لا تمثل الحقيقة، أو ترفع الثمن لتغر المشتري، وتحمله على التعاقد .

 (قرار رقم: 73 ( 4/8) بشأن عقد المزايدة، ص:144، منظمة المؤتمر الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں