بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

درخت کاٹ کر اس کی رقم مسجد میں لگانا


سوال

قبر پر درخت کا ٹنےکا حکم اور اس کا پیسہ مسجد کے کام میں لگا سکتے ہیں؟

جواب

اگر کسی قبر پر درخت اُ گ گیا ہو  اور کسی معقول عذر کی بنا  پر اُس کو کاٹنے کی حاجت ہو تو اُس کو کاٹا جا سکتا ہے، پھر جس قبر پر درخت اُگا ہو، اگر وہ قبر  موقوفہ قبرستان میں ہو تو اس  درخت کو اُسی قبرستان کے مصارف میں خرچ کرنا چاہیے، اور اگر  وہ قبرستان کسی  کی ذاتی ملکیت ہو تو مالک کی اجازت اور حکم سے اس کی رقم کو  مسجد میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔

الفتاوى الهندية (2/ 476):

"سئل نجم الدين في مقبرة: فيها أشجار هل يجوز صرفها إلى عمارة المسجد؟ قال: نعم، إن لم تكن وقفًا على وجه آخر، قيل له: فإن تداعت حيطان المقبرة إلى خراب يصرف إليها أو إلى المسجد قال: إلى ما هي وقف عليه إن عرف وإن لم يكن للمسجد متول ولا للمقبرة فليس للعامة التصرف فيها بدون إذن القاضي، كذا في الظهيرية."

امداد الاحکام میں ہے:

"سوال:  اگر کسی قبر پر خودروگھا یا درخت ہے، تو اس گھاس اور درخت کو قطع کرنا اور کسی استعمال میں لگانا ایسا ہی کوئی پھل دار درخت ہوتو اس کا پھل کھانا کیسا ہے؟

جواب:  گھاس کا کاٹنا تو جائز ہے مگر بلاضرورت شدیدہ گھاس کاٹنا اچھا نہیں، اور ضرورت میں کچھ حرج نہیں، البتہ درخت کاٹنے میں تفصیل ہے۔ اوّل یہ بتلایا جائے کہ قبرستان وقف ہے یا مملوک؟  اور وقف ہے تو متولی کوئی ہے یا نہیں؟ اور متولی نہیں ہے تو اب تک اس قبرستان کے درخت وغیرہ کس طرح صرف ہوتے رہے؟ اور بعد وجود شرائط حل قطع محض قبر پر درخت کا ہونا حلِ قطع سے مانع نہیں۔ اسی طرح پھل دار درخت کا پھل قاعدہ شرعیہ سے توڑا جائے تو محض قبر پر درخت ہونے سے اس کے پھل میں کچھ خرابی نہیں آتی۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں