بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

دارالافتاء میں استخارہ نہیں کیا جاتا، استخارہ خود کرنا چاہیے


سوال

میرا نام اعجاز الحسن اور میری منگیتر کا نام علیزہ ہے، کیا یہ جوڑ ٹھیک ہے یا نہیں؟ میرا کبھی کبھی دل نہیں مانتا، استخارہ کردیں۔

جواب

دار الافتاء بنوری ٹاؤن  شرعی مسائل کے حل کے لیے مختص ہے، یہاں "استخارہ" نہیں کیاجاتا۔ نیزاحادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے  کہ جس شخص کی حاجت ہو وہ خود استخارہ کرے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کا طریقہ اس اہتمام سے تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآن کریم کی سورت یا آیت۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واسطے آنے والی پوری امت کی تربیت اس نہج پر فرمائی کہ ہر فردِ امت اللہ تعالیٰ سے خود تعلق قائم کرے، اور مہربان رب سے ہر شخص اپنی حاجت مانگنے کے ساتھ خود ہی خیر کا طلب گار ہو۔   بہرحال ذیل میں آپ کی سہولت کے لیے استخارہ کا طریقہ درج کیاجاتاہے،اس کے مطابق آپ خود اپنی حاجت کے لیے استخارہ کرسکتے ہیں۔ استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہودو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ ہو کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔ سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے،استخارے کے بعد  جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔ اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک  استخارہ کرے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یکسوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے، لیکن خواب آنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اصل بات قلبی رجحان اور اطمینان ہے۔ 

سنن ترمذی میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌يعلمنا ‌الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: " إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري - أو قال: في عاجل أمري وآجله - فيسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري - أو قال: في عاجل أمري وآجله - فاصرفه عني، واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم أرضني به."

(أبواب الوتر، ‌‌باب ما جاء في صلاة الاستخارة، 345/2، رقم:480، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى)

فتاوی شامی میں ہے:

"وينبغي أن يكررها سبعا، لما روى ابن السني «يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات، ثم انظر إلى الذي سبق إلى قلبك فإن الخير فيه."

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:28، ط:سعید)

بہشتی زیور میں ہے:

"اگرایک دن میں کچھ معلوم نہ ہواوردل کاخلجان اورتردد نہ جاوےتودوسرےدن پھرایساہی کرے، اسی طرح سات دن تک کرےان شاء اللہ ضروراس کام کی اچھائی یابرائی معلوم ہوجاوےگی۔"

(استخارہ کی نماز کابیان، ص:107، ط:اسلامک بک سروس)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں