بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

دوران خطبہ بچوں کو روکنے کا حکم


سوال

 جمعہ کے دن امام خطبہ دیتا ہے اور اسی دوران اگر بچے شور شرابہ کریں تو اس صورت میں اس کو" بات مت کرو"اشارہ کے ساتھ روکنا چاہیے ؟

جواب

 واضح رہے کہ جمعہ  یا عیدین کے خطبہ کے دوران جب کوئی بھی بڑا بات کرے یا  بچے شور شرابا یا شرارت کر رہے ہوں، تو خطیب کو اجازت ہے کہ وہ زبان، سر یا ہاتھ کے اشارے سے بچوں کو شور شرابا  کرنے سے منع کرے،خطیب کے علاوہ دیگر لوگوں کو  اس کی اجازت نہیں ہے ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں جمعہ وعیدین کے خطبہ کے دوران اگر بچے شور شرابہ کریں تو انہیں زبان سے منع کرنا اور اس کے لیے کسی بھی قسم کا جملہ استعمال کرنا عام لوگوں کے لیے  جائز نہیں، مثلاً یہ کہنا کہ "بات مت کرو"  البتہ اگر عام لوگ  ہاتھ  وغیرہ کے اشارہ سے اس کو منع کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(وكل ما حرم في الصلاة حرم فيها) أي في الخطبة خلاصة وغيرها فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف بل يجب عليه أن يستمع ويسكت (بلا فرق بين قريب وبعيد) في الأصح محيط ولا يرد تحذير من خيف هلاكه لأنه يجب لحق آدمي، وهو محتاج إليه والإنصات لحق الله - تعالى، ومبناه على المسامحة وكان أبو يوسف ينظر في كتابه ويصححه والأصح أنه لا بأس بأن يشير برأسه أو يده ."

(قوله: أو أمر بمعروف) إلا إذا كان من الخطيب كما قدمه الشارح (قوله بل يجب عليه أن يستمع) ظاهره أنه يكره الاشتغال بما يفوت السماع، وإن لم يكن كلاما، وبه صرح القهستاني حيث قال: إذ الاستماع فرض كما في المحيط أو واجب كما في صلاة المسعودية أو سنة وفيه إشعار بأن النوم عند الخطبة مكروه إلا إذا غلب عليه كما في الزاهدي. اهـ

(كتاب الصلاة،باب الجمعة،ج:2،ص:159،سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا لم يتكلم بلسانه ولكنه أشار بيده أو برأسه أو بعينه نحو أن رأى منكرا من إنسان فنهاه بيده أو أخبر بخبر فأشار برأسه الصحيح أنه لا بأس به، هكذا في المحيط."

(كتاب الصلاة،الباب السادس عشر في صلاة الجمعة،ج:1،ص:147،دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606102411

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں