بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

دومۃ الجندل کی عورت کا قصہ اور صحیح روایت سے اس کا ثبوت اور حکم


سوال

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ: ’’رسول اللہ کی وفات کے تھوڑے عرصے بعد دومۃ الجندل کے باشندوں میں سے ایک عورت میرے پاس آئی، وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے  مل کر جادو کے متعلق کسی چیز کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتی تھی ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب اس عورت نے رسول اللہ  کو نہیں پایاتو میں نے اسے اس قدر روتے ہوئے دیکھا کہ اس کے رونے کی شدت سے مجھے ترس آ گیا۔

وہ عورت کہہ رہی تھی کہ ’’مجھے ڈر ہے کہ میں ہلاکت میں جا پڑی ہوں‘‘، میں ( یعنی حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا )نے اس سے واقعہ کی تفصیل پوچھی تو اس نے مجھے بتایا:’’میرا شوہر مجھ سے دور چلا گیا تھا، پھر ایک بوڑھی عورت میرے پاس آئی تو میں نے اس سے اپنے حال کا شکوہ کیا، اس نے کہا کہ اگر تو وہ سب کرے جس کا میں تجھے حکم دوں تو تیرا خاوند تیرے پاس لوٹ آئے گا، میں نے کہا کہ ہاں میں کروں گی، جب رات ہوئی تو وہ میرے پاس دو سیاہ کتوں کو لے کر آئی، ان کتوں میں سے ایک پر وہ خود سوار ہو گئی اور دوسرے پر میں سوار ہوئی، ان (کتوں) کی رفتار زیادہ تیز نہ تھی، (ہم چلتے رہے)، یہاں تک کہ شہر ِ”بابل“ پہنچ کر رُکے، وہاں دو آدمی اپنے پیروں سے ہوا میں لٹکے ہوئے تھے، انہوں نے پوچھا کہ تجھے کیا ضرورت ہے؟ اور کیا ارادہ لے کر آئی ہے؟ میں نے (اپنی حاجت بیان کی اور ) کہا:’’ جادو سیکھنا چاہتی ہوں‘‘ انہوں نے کہا :’’بے شک ہم آزمائش ہیں، لہٰذا تو کفر نہ کر اور واپس لوٹ جا،‘‘ میں نے انکار کیا اور کہا کہ میں نہیں لوٹوں گی، انہوں نے کہا: ’’تو اس تندور میں جا کر پیشاب کر ‘‘میں وہاں تک گئی تو کانپ اٹھی، میں خوفزدہ ہو گئی اور پیشاب نہ کر سکی اور یوں ہی ان دونوں کے پاس لوٹ آئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا:’’ کیا تو نے پیشاب کیا؟ ‘‘ میں نے جواب دیا: ’’ہاں!‘‘، انہوں نے پوچھا :’’ کیا تو نے کوئی چیز دیکھی؟‘‘ میں نے جواب دیا:’’ میں نے کچھ نہیں دیکھا‘‘ انہوں نے کہا:’’ تو نے پیشاب نہیں کیا، اپنے وطن لوٹ جا اور کفر نہ کر‘‘ میں نے انکار کیا، چناں چہ انہوں نے پھر کہا :’’میں وہاں تک گئی، پھر مجھ پر کپکپاہٹ طاری ہو گئی اور میں ڈر گئی، پھر میں ان کے پاس لوٹ گئی، انہوں نے مجھ سے پھر پوچھا:’’ تو نے کیا دیکھا؟‘‘ یہاں تک کہ اس نے بتایا کہ میں تیسری مرتبہ گئی اور تندور میں پیشاب کر دیا، پس میں نے دیکھا کہ میرے اندر سے لوہے کے گلو بند والا ایک گھوڑ سوار نکلا اور آسمان کی طرف چلا گیا، تب میں ان کے پاس آئی اور انہیں اس بات کی خبر دی، انہوں نے کہا:’’ تو نے سچ کہا، یہ تیرا ایمان تھا جو تیرے اندر سے نکل چکا ہے، اب تو لوٹ جا۔‘‘

پس میں (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے اس عورت سے کہا: ’’اللہ کی قسم! میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی اور کہا: کیا انہوں نے اس کے علاوہ بھی تجھے کچھ بتایا ہے؟ ‘‘اس نے جواب دیا:’’ہاں ، ضرور بتایا ہے کہ آپ جو تصور کریں گی وہ ہو جائے گا،  یہ گیہوں(گندم) کے دانے لیجیے اور ان کو زمین میں بو دیجیے،  چناں چہ میں نے وہ دانے لے لیے، اس نے کہا:’’ نکل آ!‘‘، تو پودے نکل آئے، پھر اس نے کہا:’’ فصل کٹ جا!‘‘، تو فصل کٹ گئی، پھر اس نے کہا:’’پس کر آٹا بن جا!‘‘، تو آٹا بن گیا، پھر اس نے کہا:’’ روٹی پک جا!‘‘ تو روٹی پک کر تیار ہو گئی، جب اس( عورت) نے دیکھا کہ میں (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) پھر بھی کچھ نہیں بولی تو وہ میرے سامنے شرمندگی سے گر پڑی اور کہنے لگی: ’’ اے ام المومنین(رضی اللّٰہ عنہا)! میں نے اس کے علاوہ کبھی کچھ نہیں کیا۔‘‘ چناں چہ میں نے رسول اللہ  کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں دریافت کیا، لیکن انہیں بھی اس بارے میں معلوم نہیں تھا کہ(اس معاملے پر) کیا کہیں، (جس چیز کا مکمل علم نہ ہو اس کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی رائے دینے میں احتیاط کیا کرتے تھے )، انہوں نے صرف اتنا کہا:’’ اگر آپ کے والدین یا ان میں سے کوئی بھی حیات ہوتے تو وہ آپ کے لیے کافی ہوتے۔‘‘

اس حدیث کے بارے میں امام حاکم رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث صحیح ہے‘‘۔ (ابنِ جریر التفسیر، بیہقی السنن، حاکم المستدرک علی الصحیحین، ابن قدامہ المقدسی عن المغنی: 8/ 152) 

اب مذکورہ بالا  حدیث کی تشریح اور تصدیق درکار ہے، کیا  یہ درست ہے یا نہیں؟

جواب

سوال میں مذکور روایت  (تفسير الطبري)، (تفسير ابن أبي حاتم)، (السنن الكبر للبيهقي)، اور (المستدرك على الصحيحين) میں موجود ہے، امام حاکم رحمہ اللہ  نے اس روایت کے متعلق کہا ہے کہ یہ روایت  سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح کی موافقت کی ہے، چناں چہ وہ فرماتے ہیں: "هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه" (یہ حدیث سنداً  صحیح ہے ، لیکن امام بخاری اور مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے)۔

اس روایت  کی تشریح یہ ہے کہ اس روایت میں دو مرد جو الٹے پاؤں لٹکے ہوئے تھے ، ان سے  مراد وہ دو فرشتے ہیں کہ جن کو اللہ تعالی نے شہر بابل میں جادو سکھلانے کے لیے بطورِ امتحان نازل کیا تھا۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے: 

﴿وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ‌هَارُوتَ ‌وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ﴾ [البقرة: 102]

ترجمہ: ”اور اس علم کے پیچھے ہو لیے جو اُترا دو فرشتوں پر شہر بابل میں جن کا نام ہاروت اور ماروت ہے اور نہیں سکھاتے تھے وہ دونوں فرشتے کسی کو جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو آزمائش کے لیے ہیں سو تو کا فرمت ہو“(بیان القرآن)

اس آیت کے تحت  مفسرین نے لکھا ہے کہ شہرِ بابل میں سحر کا بہت چرچا تھا، لوگ معجزات اور  سحر کے درمیان  فرق نہیں کرسکتے ، وہ سحر کو معجزہ کہنے لگے تھے، اور ساحر کو نبی کا درجہ دیا گیا تھا،  تو اللہ تعالی نے دو  فرشتیں بھیجے، تاکہ لوگوں کو سحرکی حقیقت سے واقف کردیں، اور ان کو ساحروں کی فریبوں سے واقف کرکے ان سے دور کردیں توجب  ان فرشتوں نے اپنا کام شروع کردیاتو مختلف قسم کے لوگ ان کے پاس  آنے شروع ہوگئے، فرشتوں نےسب کو سحر کے اصول وفروع بتادیے اور ساحروں کی حقیقت واضح کردی، پھر بھی لوگ اپنا ایمان بچانے کے لیے  فرشتوں سے جادو سیکھنے کا اصرار کرتے،تاکہ ان کو سحر اور معجزہ کا فرق معلوم ہوجائیں اور آئندہ کے لیے ساحروں کے جال سے  محفوظ ہوجائیں، تو جب لوگ یہ خیر خواہی ظاہر کرتے تو  فرشتے اولاً اسے منع کرتے جب وہ نہیں رکتے تھے تو پھر فرشتۓ  ان کو جادو کے اصول سکھلا دیتے، اور یہ تاکید  فرماتے کہ ایسانہ ہو کہ تم لوگ مذکورہ اصول شر کے کاموں میں  استعمال کرو، چناں چہ  مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں: 

”جب فرشتوں نے کام شروع کیا تو وقتاً فوقتاً مختلف لوگوں کی آمد ورفت ان کے پاس شروع ہوئی اور  وہ درخواست کرنے لگے کہ ہم کو بھی ان اصول و فروع سے مطلع کر دیجیے، تاکہ ناواقفی سے کسی اعتقادی یا عملی فساد میں مبتلا نہ ہو جائیں، اس وقت فرشوں نے بطور ِحتیاط و تبلیغ اور بنظرِ اصلاح یہ التزام کیا کہ اصول و فروع بتانے سے قبل یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ دیکھو ہمارے یہ بتانے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی آزمائش بھی مقصود ہے کہ دیکھیں ان چیزوں پر مطلع ہو کر کون شخص اپنے دین کی حفاظت و اصلاح کرتا ہے کہ شر سے آگاہ ہو کر اس سے بچے، اور کون اپنا دین خراب کرتا ہے کہ اس شر پر مطلع ہو کر وہی شر خو د اختیار کرلے ، جس کا انجام کفر ہے ، خواہ کفر عملی ہو یا اعتقادی، دیکھو ہم تم کو نصیحت کیے دیتے ہیں کہ اچھی نیت سے اطلاع حاصل کرنا اور پھر اسی نیت پر ثابت قدم رہنا ، ایسا نہ ہو کہ ہم سے تو یہ کہہ کر سیکھ لو کہ میں بچنے کے لیے پوچھ رہا ہوں اور پھر اس کی خرابی میں خود ہی مبتلا ہو جاؤ، اور ایمان برباد کر لو ۔“

(سورۃ البقرۃ، 1/ 273، ط: مکتبۂ معارف القرآن)

خلاصہ یہ  کہ مذکورہ روایت صحیح اور درست ہے، اور اس کا روایت کرنا بھی جائز ہے اوراس روایت میں دومروں  سے مراد (جس کے پاس عورت گئی تھی)وہی  دو فرشتے ہیں  جو ہاروت اور ماروت کے نام سے  شہر بابل میں نازل کیے گئے تھے، کیوں کہ علامہ طبری رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا آیت کے تحت اس روایت کو بطورِ  تشریح  پیش کی ہے، باقی اس روایت میں  سحر   سے متعلق جو بحث ہے اس کے لیے  معارف القرآن  کی  مراجعت کرلیں،حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے معارف القرآن میں آیت بالا کے ذیل میں سحر سے متعلق مسائل پوری تفصیل سے ذکرکی ہے،  لہذا ذیل میں مذکورہ روایت پوری سند کے ساتھ ”السنن الکبری للبیہقی“ کے حوالہ سے نقل کی جاتی ہے۔

"السنن الكبر للبيهقي" میں ہے: 

"أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو بكر أحمد بن الحسن القاضي، وأبو عبد الرحمن محمد بن الحسين السلمي، من أصله، قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الربيع بن سليمان، ثنا عبد الله بن وهب، حدثني ابن أبي الزناد، حدثني هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، أنها قالت: ‌قدمت ‌علي ‌امرأة ‌من ‌أهل ‌دومة ‌الجندل، جاءت تبتغي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد موته حداثة ذلك تسأله عن شيء دخلت فيه من أمر السحر ولم تعمل به، قالت عائشة رضي الله عنها لعروة: يا ابن أختي فرأيتها تبكي حين لم تجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكانت تبكي حتى أني لأرحمها، تقول: إني لأخاف أن أكون قد هلكت، كان لي زوج فغاب عني، فدخلت على عجوز فشكوت إليها ذلك، فقالت: إن فعلت ما آمرك به فأجعله يأتيك، فلما كان الليل جاءتني بكلبين أسودين فركبت أحدهما وركبت الآخر، فلم يكن كثير حتى وقفنا ببابل، فإذا برجلين معلقين بأرجلهما، فقالا: ما جاء بك؟ فقلت: أتعلم السحر، فقالا: إنما نحن فتنة، فلا تكفري، وارجعي، فأبيت وقلت: لا، قالا: فاذهبي إلى ذلك التنور فبولي فيه، فذهبت ففزعت ولم تفعل فرجعت إليهما، فقالا: فعلت؟ فقلت: نعم، فقالا: هل رأيت شيئا؟ قلت: لم أر شيئا، فقالا: لم تفعلي، ارجعي إلى بلادك، ولا تكفري. فأربت وأبيت، فقالا: اذهبي إلى ذلك التنور فبولي فيه، ثم ائتي، فذهبت فاقشعر جلدي وخفت، ثم رجعت إليهما فقلت: قد فعلت، فقالا: فما رأيت؟ فقلت: لم أر شيئا، فقالا: كذبت، لم تفعلي، فارجعي إلى بلادك ولا تكفري، فإنك على رأس أمرك. فأربت وأبيت، فقالا: اذهبي إلى ذلك التنور فبولي فيه، فذهبت إليه فبلت فيه فرأيت فارسا مقنعا بحديد قد خرج مني، حتى ذهب في السماء، وغاب عني حتى ما أراه، فجئتهما فقلت: قد فعلت، فقالا: فما رأيت؟ فقلت: رأيت فارسا مقنعا خرج مني فذهب في السماء حتى ما أراه، فقالا: صدقت، ذلك إيمانك خرج منك، اذهبي فقلت للمرأة: والله ما أعلم شيئا، وما قال لي شيئا، قالت: بلى، إن تريدي شيئا إلا كان، خذي هذا القمح فابذري، فبذرت، فقلت: اطلعي، فطلعت، فقلت: أحقلي، فأحقلت، ثم قلت: أفركي، فأفركت، ثم قلت: أيبسي، فأيبست، ثم قلت: اطحني، فأطحنت، ثم قلت: اخبزي، فأخبزت. فلما رأيت أني لا أريد شيئا إلا كان سقط في يدي، وندمت والله يا أم المؤمنين، ما فعلت شيئا قط ولا أفعله أبدا. فسألت أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وهم يومئذ متوافرون فما دروا ما يقولون لها، وكلهم هاب وخاف أن يفتيها بما لا يعلم، إلا أنه قد قال لها ابن عباس، أو بعض من كان عنده: لو كان أبواك حيين أو أحدهما. قال هشام: فلو جاءتنا اليوم أفتيناها بالضمان. قال ابن أبي الزناد: وكان هشام يقول: إنهم كانوا أهل ورع وخشية من الله، وبعداء من التكلف والجرأة على الله، ثم يقول هشام: ولكنها لو جاءت اليوم مثلها لوجدت توكي أهل حمق وتكلف بغير علم، والله أعلم."

(السنن الكبر للبيهقي، كتاب القسامة، ‌‌باب قبول توبة الساحر، وحقن دمه بتوبته، 8/ 235، ط: دار الكتب العلمية)

مستدرک حاکم میں ہے: 

"هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه والغرض في إخراجه في هذا الموضع إجماع الصحابة."

(المستدرك على الصحيحين، ‌‌كتاب البر والصلة، 4/ 171، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں