بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسال سے قبل بچے کا دودھ چھڑانا


سوال

ایک عورت کی ایک سالہ شیرخوار بچی ہے ،اور اس عورت کو دوسرا حمل ٹھرگیا ہے،اور صورت حا ل یہ ہے کہ:

1-عورت کوجسمانی کمزوری (بالخصوص خون کی کافی کمی وغیرہ )لاحق ہے ،

2-مشہور ہے کہ حمل کی حالت میں ماں کادودھ فاسد ہوجاتا ہے اور بچے کی صحت کےلیے نقصان دہ ہوتاہے،جیساکہ بعض روایات سے مفہوم ہوتاہے،(قولہ علیہ السلام  لاتقتلوااولادکم سرا،فان الغیل یدرک الفارس فیدعثرہ من الفرس،اوکماقال علیہ الصلاۃوالسلام،)

3-رمضان المبارک کے مہینے کی بھی آمد آمد ہے ،سو روزوں کی ادائیگی گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کےساتھ عورت کےلیے سخت مشقت اور حرج میں پڑنے کا اور مزید کمزور ہوجانے کااندیشہ ہے ،چنانچہ مندرجہ بالاامورِثلاثہ کے پیش نظر بچی کا دودھ ماں سے چھڑادیناچاہیے یانہیں ۔

جواب

1-صورت مسئولہ میں بچے کوعام طورپردوسال کی عمر تک دودھ پلانے کاحکم ہے،لیکن دوسال تک کا حکم وجوبی نہیں ہے ،یعنی دوسال تک دودھ پلانا ہر حال میں لازم نہیں ہے اس سے پہلے والدین باہمی رضامندی سے بچےکا دودھ چھڑنا چاہیں تو  چھڑاسکتے ہیں لیکن ایسی صورت میں متبادل طورپربچے کے لیے دیگر غذا جواس کے موافق ہواس کا بندوبست کرنا ضروری ہوگا۔

2-شرعی اعتبار سے حاملہ عورت کے لیے بچے کو دودھ پلانے کی ممانعت نہیں ہے، اس لیے حاملہ عورت بچے کو دودھ پلاسکتی ہے، البتہ اگر ماہر دِین دار طبیب/ ڈاکٹر حاملہ ہونے کی وجہ سے دودھ  کے خراب ہونے اور دودھ  پینے والے بچے کی صحت پر اثر پڑنےکے  اندیشے کی وجہ سے اس حال میں دودھ پلانے سے منع کرے تو اس کی رائے پر عمل کرنا درست ہوگا ،اور اس صورت میں دودھ نہ پلانے میں کوئی حرج نہیں،  حاصل یہ ہے کہ حالتِ حمل میں بچے کو دودھ پلانا جائز ہے،  البتہ طبی اعتبار سے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو دودھ پلانے سے احتراز کرنا درست ہوگا۔اور اگر حاملہ کادودھ بچے کےلیے نقصان دہ نہ ہو ،اور بچہ دوسر ی غذابھی نہ لے تو ایسی صورت میں بچے کی حیات کی بقاءاور صحت کی حفاظت کے خاطر ماں پر دودھ پلانالازم ہوگا ۔

3-رمضان المبارک کے روزوں کا حکم یہ ہے، کہ شیرخوار بچے کے دودھ کی خاطر روزہ نہ رکھنے کی شرعاًاجازت ہے، اسی طرح اگر حاملہ  کو روزے کی حالت میں نقصان کا خطرہ ہوتو اس کے لیے بھی روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ،بعد میں قضاءکرلے۔

احکام القرآن میں ہے : 

"والصحيح أنه لاحد لأقله ، وأكثره محدود بحولين مع التراضي بنص القرآن."

( أحكام القرآن ، سورة البقرة: ۲۳۳، (۱ / ۲۷۳ )، ط: دار الکتب العلمیة ، بیروت )

فتاویٰ شامی میں ہے :

"وأما قوله تعالى {فإن أرادا فصالا عن تراض منهما} [البقرة: 233] فإن ما هو قبل الحولين بدليل تقييده بالتراضي والتشاور، وبعدهما لا يحتاج إليهما. وأما استدلال صاحب الهداية للإمام وقوله تعالى {وحمله وفصاله ثلاثون شهرا} [الأحقاف: 15]- بناء على أن المدة لكل منهما كما مر، فقد رجع إلى الحق في باب ثبوت النسب من أن الثلاثين لهما للحمل ستة أشهر والعامان للفصال."

(کتاب الرضاع ،ج3:ص211:ط سعید)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وقال في الاصل: إذا خافت الحامل أو المرضع على أنفسهما أو على ولدهما جاز الفطر و عليهما القضاء."

(کتاب الصوم ،باب المبیحة لصوم،404/3،رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں