میرا ڈینٹل کلینک ہے،جس میں ڈینٹل یو نٹ اور ڈینٹل ایکسرے اور مختلف اوزار بھرائی ،دانتوں کی صفائی ،دانتوں کو نکالنے والے موجود ہیں، جن کی مالیت آٹھ لاکھ خریدتے وقت تھی ،اس کے علاوہ بھرائی وغیرہ کا سامان خریدنا ہوتا ہے، اس کلینک کی زکوۃ کس طرح ادا کرنی ہے؟
واضح رہے کہ وہ اوزار اور مشینری جس کے ذریعے دانتوں کا علاج کیا جاتا ہے،وہ مال تجارت نہیں بلکہ اپنے پیشے کے آلات ہیں، ان اوزار و مشینری پر زکوۃ واجب نہیں ہے، بلکہ ان کے ذریعے جو منافع آئے گا ، ا س پر سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ واجب ہوگی، بشرط یہ کہ اخراجات کے بعد جمع ہونے والی بچت نصاب کے بقدر ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر سال بھی گزرا ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کےکلینک میں جو اوزار و مشینری ہے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ باقی دانتوں کی بھرائی کا جو سامان مریض کے علاج میں صرف ہوتا ہے اور اس کی قیمت مریض سے وصول کی جاتی ہے، وہ مالِ تجارت کے حکم میں ہے، زکوٰۃ کا سال پورا ہونے کے وقت اس کی موجودہ قیمت پر زکوٰۃ ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية ؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة وذلك بالنية."
(كتاب الزكاة، فصل الشرائط التي ترجع إلى المال، ج: 2، ص: 11، ط: دار الکتب الإسلامى)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لاتجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة تبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها أو يبيعها فأمسكها حولاً لاتجب فيه الزكاة، كذا في فتاوى قاضي خان. ولو أن نخاسًا يشتري دواب أو يبيعها فاشترى جلاجل أو مقاود أو براقع فإن كان بيع هذه الأشياء مع الدواب ففيها الزكاة، وإن كانت هذه لحفظ الدواب بها فلا زكاة فيها كذا في الذخيرة. وكذلك العطار لو اشترى القوارير، ولو اشترى جوالق ليؤاجرها من الناس فلا زكاة فيها؛ لأنه اشتراها للغلة لا للمبايعة، كذا في محيط السرخسي. والخباز إذا اشترى حطبًا أو ملحًا لأجل الخبز فلا زكاة فيه".
(كتاب الزكاة، مسائل شتى في الزكاة، ج: 1، ص: 180، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144508100144
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن