بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دامت برکاتہم العالیۃ کہنے کا حکم


سوال

ہمارے ایک استاد محترم فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات مبارکہ اور احادیث نبویہ میں برکت کی نسبت صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالی کی طرف کی گئی ہے، کسی غیر کی طرف یہ نسبت منقول نہیں ہے اور ہمارے بڑے مشائخ بھی دامت برکاتہم العالیہ کے بجائے حفظہ اللہ، دامت فیوضھم، قدس سرہ، سلمہ اللہ تعالی وغیرہ جیسے دعائیہ کلمات استعمال کرتے ہیں؛ لہذا کسی غیر اللہ کے لیے دامت برکاتہم العالیہ کے کلمات استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ آپ حضرات اس حوالہ سے باحوالہ جواب تحریر فرمائیں۔

جواب

برکت کا معنی ہے: کسی چیز میں خیرِ الٰہی کا ثبوت، یعنی  جس چیز میں اللہ پاک کی طرف سے خیر رکھی جائے اُس کو مبارک کہا جائے گا، بلاشبہ برکت دینے والی ذات اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن جس چیز میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمادیں وہ بابرکت ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید میں برکت کی نسبت رات کی طرف فرمائی ہے:

إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةٍ مُبارَكَةٍ

  یعنی ہم نے اس کو ایک مبارک رات میں نازل فرمایا، نیز قرآن مجید میں پانی کو بھی  مبارک فرمایا  گیا ہے:

وَنَزَّلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً مُبارَكاً

اسی طرح برکت کا لفظ دیگر اشیاء کی طرف منسوب کر کے بھی سلفاً و خلفاً استعمال کیا جاتا ہے، چناں چہ آیتِ تیمم کے شانِ نزول  کے واقعے (جو بہت ہی مشہور واقعہ ہے)  میں حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حق میں یہ جملہ صحیح سند کے ساتھ بخاری میں موجود ہے:

ماهي بأول بركتكم یا آل أبي بکر

یعنی اے ابوبکر کے گھر والو!  یہ آپ لوگوں کی پہلی برکت (اس امت کو) نہیں (مل رہی) ہے کہ آپ کی برکت سے امت کے لیے ایک باسہولت حکم تیمم کا نازل کردیا گیا۔

حضرت اسید بن حضیر جلیل القدر صحابی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت عائشہ اور آل ابی بکر کی طرف برکت کی نسبت کر رہے ہیں، آیت میں رات اور پانی کو بابرکت کہنے میں تو تاویل کی جاسکتی ہے، لیکن صحیح بخاری کی یہ روایت غیر اللہ کی طرف برکت کی نسبت کے جواز کی واضح اور صریح دلیل ہے، اس نوعیت کی اور بہت سی مثالیں ذرا تلاش سے مل جائیں گی۔

  لہذا اکابر اور بزرگانِ دین کی طرف اگر برکت کے لفظ کی نسبت کی جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔

المفردات في غريب القرآن (ص: 119):

برك

أصل البَرْك صدر البعير وإن استعمل في غيره، ويقال له: بركة، وبَرَكَ البعير: ألقى بركه، واعتبر منه معنى اللزوم، فقيل: ابْتَرَكُوا في الحرب، أي: ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمكان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة: وقفت وقوفا كالبروك، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ: ثبوت الخير الإلهي في الشيء.

قال تعالى: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [الأعراف/ 96] ، وسمّي بذلك لثبوت الخير فيه ثبوت الماء في البركة.

والمُبَارَك: ما فيه ذلك الخير، على ذلك:

وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [الأنبياء/ 50] تنبيها على ما يفيض عليه من الخيرات الإلهية، وقال:

كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ مُبارَكٌ [الأنعام/ 155] ، وقوله تعالى: وَجَعَلَنِي مُبارَكاً [مريم/ 31] أي: موضع الخيرات الإلهية، وقوله تعالى:

إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةٍ مُبارَكَةٍ [الدخان/ 3] ، رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبارَكاً [المؤمنون/ 29] أي: حيث يوجد الخير الإلهي، وقوله تعالى:

وَنَزَّلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً مُبارَكاً [ق/ 9] فبركة ماء السماء هي ما نبّه عليه بقوله: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسَلَكَهُ يَنابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعاً مُخْتَلِفاً أَلْوانُهُ [الزمر/ 21] ، وبقوله تعالى: وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ [المؤمنون/ 18] ، ولمّا كان الخير الإلهي يصدر من حيث لا يحسّ، وعلى وجه لا يحصى ولا يحصر قيل لكلّ ما يشاهد منه زيادة غير محسوسة: هو مُبَارَكٌ، وفيه بركة.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں