بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

داماد کو زکاۃ کی مد میں قسطوں پر پلاٹ لے کر دینا


سوال

غریب داماد کو زکاۃ دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے  تو کیا اس کے نام پر قسطوں پر اس کے لیے پلاٹ خرید سکتے ہیں، جس کی قسطیں کچھ وہ خود دے گا اور کچھ میں زکاۃ کی رقم سے ادا کروں گا، یا اگر وہ خود ادا نہ کر سکے تو میں اسےآئندہ سال کی زکاۃ سے ادا کرتا رہوں گا، ان شاء اللہ! چار سے آٹھ سال کی قسطیں ہیں،  داماد بہت زیادہ غریب ہے، بچے کے دودھ کے لیے مہینے کے آ خر میں اکثر قرض لینے کی نوبت  پڑتی ہے۔

جواب

زکاۃ  اس شخص کو دی جاسکتی ہے  جس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر  رقم نہ ہو، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے  پاس ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت اور استعمال سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔

لہذا مذکورہ تفصیل کی رو سے  اگر داماد  واقعۃً مستحقِ زکاۃ ہو  تو اس کو زکاۃ دینا جائز ہوگا۔ اور اس میں دوگنا اجر ہوگا، ایک فریضۂ زکاۃ کی ادائیگی کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔

پلاٹ کی بکنگ کے لیے یہ صورت اختیار کی جائے کہ داماد خود  پلاٹ کا  اپنے لیے سودا کرلے، اگر ایڈوانس کے پیسے اس کے پاس نہ ہو تو  اس کو زکوٰۃ کی رقم سے  دیے  جاسکتے ہیں، اور   قسطوں پر پلاٹ کا سودا  ہوجانے  کے بعد  پلاٹ داماد کی ملکیت میں آجائے گا تو  وہ اس کا مالک بن جائے گا،   اس کے بعد جو قسطیں اس کے ذمہ واجب الادا  ہیں اس کی ادائیگی کے لیے اس کے ساتھ زکوٰۃ  کی مد میں تعاون کیا جاسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وَ يَجُوزُ دَفْعُهَا لِزَوْجَةِ أَبِيهِ وَابْنِهِ وَزَوْجِ ابْنَتِهِ، تَتَارْخَانِيَّةٌ".

( كتاب الزكاة، بَابُ مَصْرِفِ الزَّكَاةِ وَالْعُشْرِ، ٢ / ٣٤٥، ط: دار الفكر)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  میں ہے:

"والأفضل صرفها للأقرب فالأقرب من كل ذي رحم محرم منه ثم لجيرانه، ثم لأهل محلته ثم لأهل حرفته ثم لأهل بلدته، و قال الشيخ أبو حفص الكبير رحمه الله: لاتقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم."

( كتاب الزكاة، باب المصرف، ١ / ٢٧٢ - ٢٧٣، ط: المكتبة العصرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201703

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں