بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داماد کو زکاۃ دینا


سوال

اگر داماد صاحبِ نصاب نہ ہو تو کیا داماد کو صدقہ اور زکاۃ یہ کہہ کر دیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم لو اور اس سے اپنی بیوی کی دوائی لے آنا یا اپنے گھر کی واشنگ مشین مرمت کروا لینا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر داماد  واقعۃً مستحقِ زکاۃ ہو یعنی اس کے پاس  ضرورتِ اصلیہ سے زائد نقدی جو  نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر یا اس سے زیادہ ہو یا  کسی قسم کا مال (سونا، چاندی، نقدی یا مالِ تجارت) یا (اتنی مالیت کا ضرورت و استعمال سے زائد کسی قسم کا) سامان نہ ہو، اور ہاشمی بھی نہ ہو تو اسے زکاۃ دے  سکتے ہیں،  اور اس میں دوگنا اجر ہوگا، ایک فریضۂ زکاۃ کی ادائیگی کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وَيَجُوزُ دَفْعُهَا لِزَوْجَةِ أَبِيهِ وَابْنِهِ وَزَوْجِ ابْنَتِهِ، تَتَارْخَانِيَّةٌ". ( كتاب الزكاة، بَابُ مَصْرِفِ الزَّكَاةِ وَالْعُشْرِ، ٢ / ٣٤٥، ط: دار الفكر)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  میں ہے:

"والأفضل صرفها للأقرب فالأقرب من كل ذي رحم محرم منه ثم لجيرانه، ثم لأهل محلته ثم لأهل حرفته ثم لأهل بلدته، و قال الشيخ أبو حفص الكبير رحمه الله: لاتقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم". ( كتاب الزكاة، باب المصرف، ١ / ٢٧٢ - ٢٧٣، ط: المكتبة العصرية) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108202006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں