بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داماد کا اپنی ساس کی وراثت سے حصہ مانگنا


سوال

 میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ،ورثاء  میں ایک بیوہ ایک بیٹا اور سات بیٹیاں ہیں، والد مرحوم کی وراثت ورثاء میں تقسیم ہو گئی، والدہ کا حصہ والدہ کے نام پر، بیٹے کا حصہ بیٹے کے نام پر، اور بیٹیوں کا حصہ بیٹیوں کے نام پر منتقل ہو گیا، میری والدہ نے اپنی زندگی میں اپنے حصے کا قبضہ مجھے یعنی اپنے بیٹے کو دے دیا تھا،اور میری  سات   بہنوں کو کہا کہ میں اپنا حصہ اپنے بیٹے کو دیتی  ہوں، اب میرے حصے کا مالک میرا بیٹا ہے، تب سے اب تلک والدہ کا حصہ میرے ملکیت میں ہے، اور اس سے جو بھی آمدن آتی ہے اسے میں ہی رکھتا ہے، میری والدہ کے انتقال کے بعد میری ساتوں بہنیں والدہ مرحومہ کی کہنے کے مطابق اس بات کو مانتی ہیں کہ والدہ کا حصہ ہمارے بھائی کا ہے، کیوں کہ والدہ نے اپنی زندگی میں ہی بھائی کو دے کر مالک بنا دیا تھا، البتہ میرا ایک بہنوئی والدہ کے اس تصرف  سے انکار کرتا ہے،اور کہتا ہےمیں اس  کو میں نہیں مانتا، اور مجھے ساس کے حصے سے بھی حصہ چاہیے۔

برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ میں اپنی والدہ کے حصے کا حقدار ہوں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعی  سائل کی والدہ نے  اپنی زندگی میں ہی اپنا حصہ سائل کو دے دیا تھا تو یہ  شرعاً ہبہ ( گفٹ) کے حکم میں ہے، جوکہ سائل کو  مالکانہ قبضہ  و تصرف دینے سے ہبہ مکمل ہو گیا ہے ، وہ  جائیداد والدہ کی ملکت سے نکل کر سائل کی ملکیت میں داخل ہوگئی ہے،چناں چہ اب اُس مذکورہ جائیداد میں سائل  کے باقی بھائی  بہنوں اور بہنوئی کا حصہ نہیں بنتا،نیز شرعاً  ساس کی وراثت میں داماد کا  حصہ ہوتا بھی نہیں ۔

لہذا سائل  کے بہنوئی کا اپنی ساس کے ترکہ  میں سے حصہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

(كتاب الهبة، ج: 5، ص:690،  ط : سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

‌"ويستحق ‌الإرث بإحدى خصال ثلاث: بالنسب وهو القرابة، والسبب وهو الزوجية، والولاء."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:447، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100734

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں