بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دم/ وظیفہ کے لیےاجازت لینے کا حکم


سوال

دم کے لیےاجازت ضروری ہے، کیا اجازت لینا قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟

جواب

کسی وظیفہ یا عمل کے پڑھنے کے لیے کسی شیخ کی اجازت شرعاً لازم یا ضروری نہیں، بدونِ  اذن بھی مستند وظائف اور اعمال درست ہیں، البتہ بسا اوقات پڑھنے والے کو ان اعمال و وظائف سے متعلق بزرگوں کے تجربات کی روشنی میں اپنے احوال کے لیے اوراد کی مناسب تشخیص،   مفید ہدایات، فیض کا حصول اورکلمات وغیرہ کی اصلاح مقصود ہوتی ہے، اس لیےبعض اعمال ووظائف میں بزرگوں سے راہ نمائی لی جاتی ہے،ا سی کو ’’اذن‘‘  اور’’ا جازت‘‘ کہتے ہیں ۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال:خط کا جواب جو حضور نے روانہ کیا مجھ کو ملا، عرض یہ ہے کہ جس مضمون کو میں نے دیکھ کر حضور کو تکلیف دی وہ یہ ہے کہ فتاویٰ امداد یہ، ج:3، ص: 140، دلائل الخیرات کے پڑھنے پڑھانے کا اور اجازت لینے کا سوال ہے ،اورمولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ کا جواب ہے، اور حضور نے اس کے فوائد کی تشریح کی دو قسمیں بیان فرمایا ہے: ایک اجر وثواب، دوسرے کیفیت باطنی بلاسند پڑھنے میں اجروثواب میں کمی نہیں ہوتی، البتہ کیفیتِ باطنی میں تفاوت ہوتا ہے، بعدہ حضور کا اسمِ مبارک ہے، اسی مضمون کو دیکھ کر میرے دل میں خیال ہوا کہ حضور کی تصنیف مناجاتِ مقبول روزانہ منزل عرصہ سے پڑھتا ہوں، مگر حضور سے اجازت نہیں لی، اگر حضور کی اجازت مل گئی تو دو چند فائدہ کی امید اور دل میں خوشی زیادہ پڑھنے کی ہوگی؟

جواب:  اول تو وہ صرف توجیہ ہے، جوابِ بالا کی،  اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ و ہ میری اصلی رائے ہو، دوسرے تفاوت کی کوئی حد بیان نہیں کی گئی، ممکن ہے وہ تفاوت غیر معتد بہ ہو جس کو آپ نے دو چند قرا ر دے لیا، تیسرے یہ تفاوت اس شخص کے لیے  ہے جو تربیتِ  باطنہ کا شیخ سے تعلق رکھتا ہو کہ طریقِ  تربیت مشابہ علاجِ  طبی کے ہے کہ مریض اپنی رائے سے کوئی عمل نہیں کرسکتا، اس کی مصالح کو طبیب ہی سمجھتا ہے، اسی طرح سالک طریقِ  مصالح کی تشخیص میں شیخ کا محتاج ہے،اس لیے اس کی اجازت کی ضرورت ہے، آپ کا یہ تعلق جس سے ہو اس بنا  پر تمام اذکار کی اس سے اجازت لینا چاہیے۔"

(کتاب العقائد والكلام، ج:6، ص:214، ط: دارالعلوم کراچی)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"سوال:کیا اوراد و ظائف ار عملیات کے لیے شیخ کی اجازت لینا ضروری ہے یا نہیں؟جب کہ بعض لوگ تعویذات اور   دیگر عملیات  میں اجازت شیخ کو ضروری  تصور کرتے ہیں۔

جواب:اوراد ووظائف کے صرف پڑھنے میں تو کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ،البتہ اگر شیخ  کی اجازت ہو تو ان میں برکت اور فیض مزید جاری ہوتا ہے۔فقط واللہ اعلم۔"

(کتا ب السلوک، ج:2، ص:252، ط: دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ)

الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی میں ہے :

"الإجازة من الشيخ غير شرط جواز التصدي للإقراء والإفادة فمن علم من نفسه الأهلية جاز له ذلك وإن لم يجزه أحد وعلى ذلك السلف الأولون والصدر الصالح وكذلك في كل علم وفي الإقراء والإفتاء خلافا لما يتوهمه الأغبياء من اعتقاد كونها شرطا وإنما إصطلح الناس على الإجازة لأن أهلية الشخص لا يعلمها غالبا من يريد الأخذ عنه من المبتدئين ونحوهم لقصور مقامهم عن ذلك والبحث عن الأهلية قبل الأخذ شرط فجعلت الإجازة كالشهادة من الشيخ للمجاز بالأهلية."

(‌‌النوع الرابع والثلاثون: في كيفية تحمله، ج:1، ص:355، ط: الهيئة المصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102676

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں