بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دم کرتے وقت ورد پڑھنے کے بعد سو یا دو سو لوگوں پر ایک ساتھ پھونکنے کا حکم


سوال

 ہمارے  علاقہ میں ایک شخص لوگوں کو دم کرتا ہے، لیکن وہ  100/200 لوگوں کو ایک ہی چف پہ دم کرتا ہے ، وہ لوگوں سے ان کے بیماری کے بارے میں نہیں پوچھتا  اور سب کو ایک ہی ٹائم پہ دم کرتا ہے ، کیا یہ صحیح ہے ؟  اور دم کروانے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟

جواب

دم کرنے کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں وارد نہیں ہوا ہے، جو معمولات قرآن و حدیث سے ثابت ہوں یا جس دم اور تعویذ کے کلمات معلوم ہوں، ان میں خلافِ شرع کوئی کلمہ نہ ہو، نہ اس عمل میں کوئی خلافِ شرع بات پائی جائے اور اسے مؤثر بالذات نہ سمجھا جائے، ایسا دم اور تعویذ  جائز ہوگا اور اس طرح سے دم کرنا اور کروانا شریعت کے موافق کہلائے گا بشرطیکہ اسے غلط مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

سوال میں دم کرنے کا جو طریقہ ذکر کیا گیا ہے یہ چیزیں تجربات سےتعلق رکھتی ہیں اگرخلاف شرع دم درود کا طریقہ اختیارنہ کیا جائے اوراس طرح دم کرنےسےمریض پراثرہوتاہوتوشرعاً اس کی اجازت ہے۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ جو شخص خود پڑھ سکتا ہو وہ قرآن پاک میں وارد دعاؤں اور مسنون دعاؤں  کو یاد کرکے خود پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرے۔

جامع الترمذی میں ہے:

"٢٠٦٣ - حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ، فَسَأَلْنَاهُمُ القِرَى فَلَمْ يَقْرُونَا، فَلُدِغَ سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا فَقَالُوا: هَلْ فِيكُمْ مَنْ يَرْقِي مِنَ العَقْرَبِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا، وَلَكِنْ لَا أَرْقِيهِ حَتَّى تُعْطُونَا غَنَمًا، قَالُوا: فَإِنَّا نُعْطِيكُمْ ثَلَاثِينَ شَاةً، فَقَبِلْنَا فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ: الحَمْدُ لِلَّهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ، فَبَرَأَ وَقَبَضْنَا الغَنَمَ، قَالَ: فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْهَا شَيْءٌ فَقُلْنَا: لَا تَعْجَلُوا حَتَّى تَأْتُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَيْهِ ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي صَنَعْتُ، قَالَ: «وَمَا عَلِمْتَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟ اقْبِضُوا الغَنَمَ وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ». هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ المُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطْعَةَ وَرَخَّصَ الشَّافِعِيُّ لِلْمُعَلِّمِ أَنْ يَأْخُذَ عَلَى تَعْلِيمِ القُرْآنِ أَجْرًا، وَيَرَى لَهُ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَى ذَلِكَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الحَدِيثِ وَرَوَى شُعْبَةُ، وَأَبُو عَوَانَةَ، وَهِشَام، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

٢٠٦٤ - حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا المُتَوَكِّلِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِحَيٍّ مِنَ العَرَبِ فَلَمْ يَقْرُوهُمْ وَلَمْ يُضَيِّفُوهُمْ، فَاشْتَكَى سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا فَقَالُوا: هَلْ عِنْدَكُمْ دَوَاءٌ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، وَلَكِنْ لَمْ تَقْرُونَا وَلَمْ تُضَيِّفُونَا، فَلَا نَفْعَلُ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا، فَجَعَلُوا عَلَى ذَلِكَ قَطِيعًا مِنَ الغَنَمِ، قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنَّا يَقْرَأُ عَلَيْهِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ فَبَرَأَ، فَلَمَّا أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: «وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟» ـ وَلَمْ يَذْكُرْ نَهْيًا مِنْهُ ـ وَقَالَ: «كُلُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ». هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الحَدِيثَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي وَحْشِيَّةَ، عَنْ أَبِي المُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ".

(بَابُ مَا جَاءَ فِي أَخْذِ الأَجْرِ عَلَى التَّعْوِيذِ، ٤/ ٣٩٨)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144206200533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں