بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دم کرنے اور کروانے کا حکم اور جواز کی شرائط


سوال

مختلف بیماریوں کے آنے پر بعض علاقوں میں مخصوص آستانے اور چبوترے ہوتے ہیں،جو کہ مخصوص بیمار یوں کامخصوص دم کرتے ہیں،یہ"خاندانی ہودہ" کے نام سے موسوم ہے،عوام کے ذہن میں یہ راسخ ہے کہ فلاں بیماری کا یہ" دم ہودہ" فلاں خاندان کے ساتھ مخصوص ہے،فلاں خاندان فلاں مرض کے لیے"ٹنگ"ہے یعنی اس بیماری کے "دم ہودے "کا انحصار اسی خاندان پر ہے،دور سے لوگ انہی کے پاس آتے ہیں اور دم کرواتے ہیں،شکرانہ کوئی دےیا نہ دے کوئی فرق نہیں،پھر جس خاندان سے "یہ دم ہودہ" کروایا جاتا ہے،اگر چہ اس خاندان کادم  کرنے والا فرد ان پڑھ،بے دین،فاسق،بے نمازی کیوں نہ ہو ،اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتااور عوام کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ جیسے ہی اس مرض کا علاج اس خاندان سے لیا جائے ،تو شفا ملنے میں کوئی شک نہیں۔

اس کے مقابلے میں کوئی جیدعالم دین،شیخ الحدیث،صوفی بزرگ ان لوگوں کودم کرنا چاہےتو لوگ ان سے دم کروانے کے  لیے تیار نہیں ہوتے،بلکہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں خاندان کے پاس جانا ہوگااور ان کے دم سے لامحالہ ہماری بیماری ختم ہوگی۔

اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے مذکورہ"دم ہودہ"کسی مخصوص خاندان سے کروانا جائز ہے،جب کہ اس سے اعتقادِ فاسدکے پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

مذکورہ" دم ہودہ" کے بارےمیں تفصیل سے جواب دیں،کیونکہ علاقائی علماء کرام کی اس بارے میں دو آراء ہیں اور ہر ایک دلائل سے اپنی رائے کو قوی بتا رہا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ دم کرنےاور کروانے کو علماء کرام نےمختلف شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے،جوکہ درج ذیل ہیں:

(1)اللہ رب العزت کے کلام یعنی قرآن کریم  اوراللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں ،صفات اور اسی طرح ادعیہ ماثورہ ومنقولہ کے ذریعہ ہو۔

(2)عربی زبان میں ہو،اگر کسی عجمی زبان میں ہو تو اس کا معنی و مفہوم معلوم ہو۔

(3)یہ عقیدہ نہ رکھا جائےکہ دم میں خود کوئی تاثیر ہے،بلکہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ مؤثر حقیقی صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے اور دم اس کے لیے صرف ایک سبب کے درجے میں ہے۔

(4)اس میں كسي حرام چيز مثلاّ  جادو ،شرکیہ اور کفریہ کلمات وغیرہ کا عمل دخل نہ ہو۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں اگر ''دم ہودہ '' کے الفاظ قرآن کریم یاادعیہ ماثورہ  کے ہوں، یاکسی اور زبان کے ہوں لیکن ان کامعنی معلوم ہو،اس میں کسی حرام چیز مثلاً جادو اورشرکیہ و کفریہ کلمات کا عمل دخل نہ ہو  توفی نفسہ تواس دم کی اجازت ہے ،لیکن اگر لوگ  کسی مخصوص خاندان کے دم کومؤثر حقیقی سمجھ کر مخصوص بیماریوں کے لیےاس خاندان والوں کے پاس دم کروانے جاتے ہیں،اور ان کا یہ اعتقاد ہوتاہے کہ فلاں بیماری فلاں خاندان کے ساتھ مخصوص ہےاور جیسے ہی اس بیماری کا علاج اس خاندان سے لیا جائے تو شفا   ملنے میں کوئی شک نہیں اور ان کے دم سے لا محالہ ہماری بیماری ختم ہوگی،تو ان لوگوں کا یہ اعتقاد رکھنا اوراس اعتقاد کے ساتھ دم کرواناشرعاً درست نہیں ہے۔

 لوگوں پر لازم ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں کہ تمام بیماریوں کو لانے والی اور ان سے شفادینے والی ذات صرف ایک اللہ رب العزت کی ذات ہے،اور اگر کسی پر کوئی بیماری آجائے،تو اولاً تو وہ بذاتِ خود ہی اپنے اوپر دم کرکے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس بیماری سے شفا کی دعا کرے ،اگر وہ بذاتِ خود دم کرنے پر قادر نہ ہو،تو پھر کسی معتبر عالمِ دین،صوفی یا بزرگ سے مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے دم کروائے،نہ کہ کسی  ان پڑھ،بے دین،فاسق اور بے نمازی سے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية فقلنا يا رسول الله كيف ترى في ذلك فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»"

(مسلم شریف،کتاب السلام،باب استحباب الرقیہ ،ج:2،ص:224،ط:قدیمی)

فتح الباری لابن حجر میں ہے:

"وقد أجمع العلماء ‌على ‌جواز ‌الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالى"

(جزء:10،باب الرقیٰ،ج:10،ص:195،دار المعرفہ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وأما ما كان ‌من ‌الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذا أو رقية أو نشرة، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع لاحتمال الشرك فيها"

(کتاب الطب والرقیٰ،ج:7،ص:2880،ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"وكان النبي - صلى الله عليه وسلم - يأخذ من ريق نفسه، على إصبعه السبابة، ثم يضعها على التراب، فيعلق بها منه، فيمسح بها على الموضع الجريح والعليل، ويتلفظ بهذه الكلمات في حال المسح. قال الأشرف: هذا يدل على جواز الرقية ما لم تشتمل على شيء من المحرمات كالسحر. وكلمة الكفر اهـ.

ومن المحذور أن تشتمل على كلام غير عربي أو عربي لا يفهم معناه، ولم يرد من طريق صحيح، فإنه يحرم كما صرح به جماعة من أئمة المذاهب الأربعة ; لاحتمال اشتماله على كفر"

(کتاب الجنائز:ج:3،ص:1125،ط:دارالفکر)

رد المحتار میں ہے:

(قوله التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن...ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى...قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج:6،ص:363،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں