بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دم جنایت ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر زینب پر عمرے کے دوران کسی غلطی کی وجہ سے دم واجب ہو گیا ہو اور وہ  نہ خود  اور نہ ہی اس کا خاوند دم دینے کی استطاعت رکھتا ہو تو متبادل حل کیا ہوگا؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر زینب پر   عمرہ کے دوران کسی شدید عذر کے بغیر غلطی  سے  دم واجب ہوگیا ہو  تو  وہ دم ذمے  میں باقی رہے گا، زندگی میں جب بھی استطاعت ہو اس کو ادا کرنا لازم ہوگا، روزے وغیرہ رکھنے سے یہ واجب ادا نہیں ہوگا، البتہ جب تک استطاعت نہ ہو توبہ و استغفار کرتی رہے، اور  مرتے وقت اگر ترکے  میں مال ہو تو اس میں سے یہ دم ادا کرنے کی وصیت کرنا ضروری ہوگا۔

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 557):

"(وإن طيب أو حلق) أو لبس (بعذر) خير إن شاء

(قوله: بعذر) قيد للثلاثة وليست الثلاثة قيدا، فإن جميع محظورات الإحرام إذا كان بعذر ففيه الخيارات الثلاثة كما في المحيط قهستاني، وأما ترك شيء من الواجبات بعذر فإنه لا شيء فيه على ما مر أول الباب عن اللباب وفيه: ومن الأعذار الحمى والبرد والجرح والقرح والصدع والشقيقة والقمل، ولا يشترط دوام العلة ولا أداؤها إلى التلف بل وجودها مع تعب ومشقة يبيح ذلك، وأما الخطأ والنسيان والإغماء والإكراه والنوم وعدم القدرة على الكفارة فليست بأعذار في حق التخيير ولو ارتكب المحظور بغير عذر فواجبه الدم عينا، أو الصدقة فلا يجوز عن الدم طعام ولا صيام، ولا عن الصدقة صيام؛ فإن تعذر عليه ذلك بقي في ذمته. اهـ. وما في الظهيرية من أنه إن عجز عن الدم صام ثلاثة أيام ضعيف كما في البحر."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104201070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں