بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دلال کی اجرت کی جائز و ناجائز صورت


سوال

1۔ سعودی عرب میں مخصوص لوگ ہیں جومزدوروں کے لیے مزدوری ڈھونڈ تے ہیں،جب کسی کمپنی میں مزدوری ملتی ہے اوراجرت ایک گھنٹہ کے حساب سے مثلا 20 ریال ہوتےہیں، تووہ مخصوص لوگ مزدوروں سے ہر 20ریال میں 5 ریال لیتےہیں ،تو کیا ان دلالوں کے لیے مزدوروں سے ہر20ریال میں5 ریال لیناجائز ہے یانہیں ؟

2۔نیز کمپنی والے مزدور وں کوہر مہینےکے آخر میں تنخواہ نہیں دیتے ،بلکہ جب تین مہینےپورے ہوتے ہیں توتینوں مہینوں کی تنخواہیں تیسرے مہینے کے  آخرمیں ایک ساتھ دیتے ہیں، پھر کبھی کبھار ایسا ہوتاہے کہ کوئی مزدور دومہینےکام کرکےوہاں سے جاتاہے توکمپنی والے اس کودومہینوں کی تنخواہ نہیں دیتے،کیوں کہ کمپنی کااصول یہ ہے کہ وہ تیسرےمہینے کے آخر میں تنخواہ دیتی ہے،تودلال مزدور سے کہتا ہے کہ 2تنخواہیں میں آپ کونقد دیتاہوں ،لیکن اُس میں سے مثلًا 200ریال میں کٹوتی کروں  گااورکمپنی جب مقررہ وقت پر تنخواہ دے گی تووہ پوری میں لوں گا،کیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟ اگرنہیں توجواز کی کیا صورت ہوگی ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگرمزدوروں کوکام دلانے والے دلال لوگوں کا کمپنی سے یہ معاہدہ ہواہو کہ وہ  کمپنی کوجتنےملازم مہیا کریں گے،توکمپنی اُنہیں ہر ملازم مہیا کرنے پر اتنی (متعینہ)اجرت دے گی، تو کمپنی کوملازم مہیاکرنے کی صورت میں اُن کاکمپنی سے متعینہ اجرت لیناجائزہوگا، یا ا ُنہوں نے مزدوروں  سے یہ معاہدہ کر رکھا ہو کہ تمہیں ملازمت دلوانے کی کاروائی کرنےپرہم  اتنی (متعینہ )اجرت لیں گے تو  کسی مزدورکو کام دلانے کی صورت  میں اُن کے لیے اُس مزدورسے ایک ہی مرتبہ میں متعینہ اجرت لینا جائز ہوگا۔ لیکن اس طرح معاہدہ  کرنا کہ ہر20ریال میں 5ریال ہم لیں گے، شرعاً جائز نہیں ہے۔

2۔دلال کامزدورکواُس کی تنخواہ سے 200ریال کم دینااورپھراُس کے عوض مقررہ وقت پر اُس کی تنخواہ پوری پوری وصول کرناجائزنہیں،اس کی جائز صورت یہ ہے کہ دومعاملے کیے جائیں،پہلےوکالت کامعاملہ کیاجائے،یعنی مزدوردلال کوکمپنی سے اپنی تنخواہ کی رقم وصول کرنے کاوکیل بنائے،اور اُس کی  اجرت متعین کرے مثلاً کمپنی سے رقم وصول کرنے کے لیے آنے جانے کی اجرت سو ریال ہے،لہٰذامزدور دلال کواس وکالت کی اجرت (مثلاً100 ریال ) ادا کرے ،پھر قرض کامعاملہ کیاجائے یعنی مزدوردلال سےمطلوبہ رقم بطورِقرض لےلے،اور اس کواس بات کااختیار دے دے کہ جب  کمپنی سے اس کو مزدور کی تنخواہ کی رقم وصول ہوجائےتووہ اس رقم سے اپناقرض وصول کرلے۔اس طرح یہ دونوں الگ الگ معاملات ہوجائیں گے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم."

(مطلب في أجرة الدلال،63/6، ط: سعيد)

وفیہ ایضًا:

"كلّ قرض جرّ نفعًا حرام."

(مطلب كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، 166/5، ط: سعيد)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"يجبر ‌الوكيل ‌بالأجرة على إيفاء الوكالة."

(الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة، خلاصة الباب الثالث في أحكام الوكالة،653/3، ط: دارالجیل)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے :

"صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثورا ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنسانا ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد."

(كتاب الإجارة، الباب الخامس عشر في بيان ما يجوز من الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، 144/4، ط: رشيدية)

بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ میں ہے:

"ولكن هذه المعاملة يمكن تصحيحها بتغيير طريقها وذلك أن يوكل صاحب الكمبيالة البنك باستيفاء دينه من المشتري (وهو مصدر الكمبيالة) ويدفع إليه أجرة على ذلك، ثم يستقرض منه مبلغ الكمبيالة، ويأذن له أن يستوفي هذا القرض مما يقبض من المشتري بعد نضج الكمبيالة، فتكون هناك معاملتان مستقلتان: الأولى معاملة التوكيل باستيفاء الدين بالأجرة المعينة، والثانية: معاملة الاستقراض من البنك، والإذن باستيفاء القرض من الدين المرجو حصوله بعد نضج الكمبيالة، فتصح كلتا المعاملتين على أسس شرعية، أما الأولى، فلكونها توكيلا بالأجرة، وذلك جائز، وأما الثانية، فلكونها استقراضا من غير شرط زيادة، وهو جائز أيضا."

(أحكام البيع بالتقسيط، ص: 24،25، ط: دارالقلم)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144311100936

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں