میرا دوست ڈاکٹر ہے، وہ علاقے میں کلینک کھول رہا تھا تو اس نے مجھ سے کہاکہ:" آپ میرے ساتھ میڈیکل اسٹور کھول لو، اچھا پرافٹ ہے، میں نے ہاں کر دی، کلینک کی جگہ کرائے کی تھی ، سات ہزار روپے کرایہ تھا، اس میں سے چار ہزار روپے میرا دوست دیتا تھا کلینک کا اور تین ہزار روپے میڈیکل اسٹور کا میں دیتا تھا، جب وہ کلینک بنا رہا تھا تو کلینک کا سارا سامان اس نے لگایا اور میڈیکل اسٹور کا سارا سامان میں نے خریدا۔البتہ کلینک کے پنکھے اور ٹیبل میں نے لگوائے ہیں۔نیو بلائزر مشین میں اپنے گھر سے لایا ، باقی میڈیکل اسٹور کی ساری دوائیاں میں نے اپنے پیسوں سے خریدی تھی۔
اب مجھے کچھ سوالات کرنے ہیں:
1۔کلینک میں میرا حصہ ہے یا نہیں ؟اس لیے کہ میری چیزیں( پنکھا ٹیبل وغیرہ) استعمال ہو رہی ہیں، لیکن میں نے اس وقت دوست سمجھ کر دے دیں تھیں، کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا؟
2۔ نیو بلائزر مشین سے جو پیسے ملتے ہیں وہ کس کا حق ہے؟ میرا یا میرے دوست کا؟ نیو بلائزر مشین چلانے پر مریضوں سے پیسے لیے جاتے ہیں۔
3۔میڈیکل اسٹور کی کمائی میں میرے دوست کا حصہ ہے یا نہیں؟ کیونکہ دن میں میڈیکل ا سٹور میرا دوست چلاتا ہے، کیونکہ میں دن میں نہیں ہوتا، لیکن دوائیاں میرے پیسوں کی ہے، دوست سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، بس دوستی میں وہ بیٹھتا ہے۔
4۔میرا دوست کمپنی سے معاہدہ کرتا ہے، جیسے ڈاکٹر حضرات عمومًا کرتے ہیں ، کمپنی، ڈاکٹر حضرات سے کہتی ہے کہ ہماری کمپنی کی دوائیاں بیچو تو ساٹھ ہزار روپے پر دس ہزار روپے ملیں گے، اس معاہدے کے تحت دس ہزار کی دوائیاں ہر مہینے لینی پڑتی ہیں ،میرا دوست ہر مہینے دس ہزار روپے اپنے لے لیتا ہے، اور دوائیاں میرے اوپر ڈال دیتا ہے، حالانکہ ہمارا آپس میں ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا کہ وہ میڈیسن کمپنیوں سے دوائیاں لے گا اور میں بیچوں گا ، میڈیکل اسٹور پر مال نکلتا نہیں ہے،اور یہ اپنے پیسوں کے چکر میں مال اٹھاتا رہتا ہے ، میں نے منع بھی کیا کہ مال نہیں لو، پہلے والا مال بہت باقی ہے، لیکن وہ نہیں مانتا۔
اب میرا دوست کمپنی سے معاہدہ کی بنیاد پر جو پیسے لے رہا ہے ، اس کے لیے یہ پیسے لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو پھر کمپنیوں سے ملنے والے پیسوں پر کس کا حق ہے؟ کیوں کہ مال میڈیکل اسٹور کا ہوتا ہے، پیسے کمپنیوں کو مجھے ہی ادا کرنے ہوتے ہیں، میری اجازت کے بغیر میرے دوست کا میڈیسن کمپنیوں سے دوائیاں لینا جائز ہے یا نہیں؟ حالاں کہ بعد میں بوجھ میرے اوپر پڑے گا، میں مقروض ہو جاؤں گا۔
1۔صورتِ مسئولہ میں کلینک یا اس کی کمائی میں سائل کا کوئی حق نہیں ہے، سائل نے جو چیزیں کلینک میں لگوائی ہیں، اس کی کوئی اجرت طے نہیں کی تھی،بس دوستی میں دوست کے ساتھ اچھائی کرتے ہوئے چیزیں لگوادیں تھیں، اس لیے اس کے بدلے میں سائل کسی اجرت کا مستحق نہیں ہے، البتہ آئندہ کے لیے سائل کو اختیار ہےچاہے تو وہ چیزیں واپس لے لے یا پھر دوست کے ساتھ بات چیت کرکے باہمی رضامندی سے ان کی اجرت طے کرلے۔
2۔مذکورہ مشین سائل نے اپنے گھر سے لاکر کلینک میں رکھ دی،اور اپنے دوست کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا،دوست نے اس کو چلایا اور اس سے کمائی کی ، تو اب اس کمائی میں سائل کا کوئی حق و حصہ نہیں، البتہ آئندہ کے لیے سائل کو اختیار ہے چاہے تو مذکورہ مشین واپس لے لے یا پھر دوست کے ساتھ بات چیت کرکے باہمی رضامندی سے اس کی اجرت طے کرلے۔
3۔اگر سائل کا بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ سائل کا دوست دن کو میڈیکل اسٹور چلاتا ہے، اور اس کے ساتھ اجرت کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ، بلکہ وہ دوستی میں یہ کام کرتا ہے، تو ایسی صورت میں سائل کے میڈیکل اسٹور میں سائل کا دوست حصہ دار نہیں ہے۔
4۔صورتِ مسئولہ میں چوں کہ کمپنی سے معاہدہ سائل کا دوست کرتا ہے، لہذا ساٹھ ہزار کی دوائی لینے پر کمپنی کی طرف سے جو دس ہزار روپے دیئے جاتے ہیں، ان کا مستحق بھی سائل کا دوست ہی ہوگا،اور اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوائیاں آگے فروخت کرے، سائل شرعاً اس مال کو اپنے میڈیکل میں رکھنے کا پابند نہیں ہے،اور نہ ہی سائل اس مال کی قیمت ادا کرنے کا پابند ہے، جب کہ سائل کا اس سے اس طرح کا کوئی معاہدہ بھی نہیں ہوا ہے۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:
"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(كتاب المداينات: 2 / 226، ط: دار المعرفة)
فيض الباري على صحيح البخاري میں ہے:
"ففي «القنية»: المتبرع لايرجع فيما تبرع به، فباب الرجوع لايمشي في التبرعات."
(كتاب الهبة و فضلها و التحريض عليها، باب هبة الواحد للجماعة: 4 / 58، ط: دار الكتب العلمية)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء."
(فصل في بيان حكم الملك و الحق الثابت في المحل،6 /264، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے :
"قال في التاترخانية: و في الدلال و السمسار يجب أجر المثل و ما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم، و في الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدًا؛ لكثرة التعامل، و كثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، جلد ۶ / ۶۳ / ط: دار الفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100697
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن