بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈاکو کا ڈکیتی کے دوران کسی کو قتل کرنے کی صورت میں اس کی سزا کا حکم


سوال

تین راہ زنوں نے ایک بندے کا مال چھیننے کے لالچ میں اس بندے پر گولی چلائی اور وہ بندہ قتل ہوگیا اور یہ راہ زن بھی پکڑے گئے ،اب یہ تین راہ زن کہتے ہیں کہ ہم نے اس پر گولی چلائی ہے ،لیکن قتل کرنے کے ارادے سے نہیں، بلکہ ڈرانے کیلئے چلائی ہے ،اب کیا شریعت میں ان تینوں قاتلوں کو اس ایک مقتول کے بدلے میں قتل کیا جائے گا یا نہیں ؟اگر قتل کیا جائے گا تو پھر وہ قتل حداً ہوگا  یا کہ قصاصاً ، یا یہ کہ اس مقتول کے اولیاء کو معاف کرنے کی یا دیت لینے کی اجازت ہوگی یا نہیں ؟ اور ہمارے ہاں نظام اسلامی نہیں ہے، اب کیا کوئی نیک اور صالح بندہ ان کے اس مسئلے کو عرف عام کے مطابق حل کرسکتا ہے یا نہیں ؟ مفصل و مدلل وضاحت فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کا مال اگر کھلم کھلا علی الاعلان اسلحہ کے زور پر لیاجائے تو اسے شریعت میں قطع الطریق (راہ زنی ،ڈاکہ زنی)کہا جاتاہے،اسلامی آئینِ  حدود وتعزیرات  کی رو سےاس جرم کی سزا یعنی  ڈاکہ زنی  کی صورت میں بحسبِ  شرائط  و تفصیل  دائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں کو کاٹ دیناہے، البتہ ڈاکو اگر کسی کا مال چھیننےكے دوران صاحب ِمال کو قتل کردے تو اس صورت میں اس ڈاکوکی سزا قتل ہے اور اگر مال بھی چھینے اور صاحبِ  مال کو قتل بھی کردے اور  پھر ایسا ڈاکو پکڑا جائے تو  شریعت میں  اس کی سزا  سولی پر لٹکاکر نیزوں کے ذریعے مارکر قتل کر دیناہے، تاہم اگر صرف مال چھین کر بھاگ جائے  اور پھر بعد میں پکڑا جائے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اس ڈاکو کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب تین راہ زنوں نے ایک شخص کے مال چھیننے کے لالچ میں اس پر گولی چلائی جس سے وہ شخص قتل ہوگیا تو  اگران تینوں نے اسے قتل کرکے اس کا مال بھی چھین لیا تھا تو اس صورت میں ان کی سزا سولی پر لٹکا کر نیزوں کے ذریعے مار کر قتل کردینا ہےاور اگر انہوں نے مال نہیں چھینا تھا بلکہ مال چھیننے کی کوشش میں اس شخص کو صرف قتل کیا ہے تو اس صورت میں ان تینوں کی سزا قتل ہےاور یہ سزا حداً لازم ہوگی نہ کہ قصاصاً ،لہذا مقتول کے اولیاء نہ تو ان قاتلین کو معاف کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان سے دیت لے سکتے ہیں۔ 

واضح رہے کہ  حدود و قصاص کی تنفیذ حاکمِ  وقت یا اس کے نائب ( عدلیہ)  کی ذمہ داری ہے، عوام الناس بذاتِ  خود نہ ہی کسی پر حد قائم کرسکتے ہیں اور نہ ہی بذاتِ  خود قصاص لے سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(باب قطع الطريق) و هو السرقة الكبرى

(من قصده) و لو في المصر ليلًا به يفتى (و هو معصوم على) شخص (معصوم) و لو ذميًّا، فلو على المستأمنين فلا حد (فأخذ قبل أخذ شيء وقتل) نفس (حبس) وهو المراد بالنفي في الآية: وظاهر أن المراد توزيع الأجزية على الأحوال كما تقرر في الأصول (بعد التعزير) لمباشرة منكر التخويف (حتى يتوب) لا بالقول بل بظهور سيما الصلحاء (أو يموت) (وإن أخذ مالا معصوما) بأن يكون لمسلم أو ذمي كما مر (وأصاب منه كلا نصاب قطع يده ورجله من خلاف إن كان صحيح الأطراف) لئلايفوت نفعه وهذه حالة ثانية. (وإن قتل) معصوما (ولم يأخذ) مالاً (قتل) وهذه حالة ثالثة (حدًّا) لا قصاصًا(ف) لذا (لا يعفوه ولي، ولا يشترط أن يكون) القتل (موجبا للقصاص) لوجوبه جزاء لمحاربته لله تعالى بمخالفة أمره وبهذا الحل يستغنى عن تقدير مضاف كما لايخفى.

 (و) الحالة الرابعة (إن قتل وأخذ) المال خير الإمام بين ستة أحوال: إن شاء (قطع) من خلاف (ثم قتل أو) قطع ثم (صلب) أو فعل الثلاثة (أو قتل) وصلب أو قتل فقط (وصلب فقط) كذا فصله الزيلعي ويصلب (حيًّا) في الأصح وكيفيته في الجوهرة (ويبعج) بطنه (برمح) تشهيرا له ويخضخضه به (حتى يموت ويترك ثلاثة أيام من موته) ، ثم يخلى بينه وبين أهله ليدفنوه و (لا أكثر منها) على الظاهر وعن الثاني يترك حتى يتقطع (وبعد إقامة الحد عليه لا يضمن ما فعل) من أخذ مال وقتل وجرح زيلعي (وتجري الأحكام) المذكورة (على الكل بمباشرة بعضهم) الأخذ و القتل و الإخافة.

[تنبيه] قد علم من شروط قطع الطريق كونه ممن له قوة ومنعة، وكونه في دار العدل، ولو في المصر،و لو نهارًا إن كان بسلاح، وكون كل من القاطع والمقطوع عليه معصوما، ومنها كما يعلم مما يأتي كون القطاع كلهم أجانب لأصحاب الأموال، وكونهم عقلاء بالغين ناطقين، وأن يصيب كلا منهم نصاب تام من المال المأخوذ، وأن يؤخذوا قبل التوبة.

ثم اعلم أن القطع يثبت بالإقرار مرة واحدة. وعند أبي يوسف بمرتين ويسقط الحد برجوعه لكن يؤخذ بالمال إن أقر به يثبت بشهادة اثنين بمعاينته أو بالإقرار به، فلو لأحدهما بالمعاينة والآخر بالإقرار لا تقبل."

(كتاب السرقة. باب قطع الطريق، 117,113/4، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(فصل):  وأما شرائط جوازاقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها ومنها ما يخص البعض دون البعض أما الذى يعم الحدود كلها فهو الامامة وهو أن يكون المقيم للحدوهوالامام أو من ولاه الامام و هذا عندنا."

(كتاب الحدود،  فصل في شرائط جواز إقامة الحدود ،57/7،  ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں