بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داخلہ فارم میں طلبہ سے زکات وصولی کے وکالت نامہ پر دستخط لینے کی شرعی حیثیت


سوال

مدرسہ کی توسیع تعمیر کے لئے مخیر حضرات سے زکوٰۃ کی رقم وصول کی جا سکتی ہے، جب کہ داخلہ کے وقت طلباء سے توکیل نامہ لیا جاتاہے کہ انتظامیہ یا مہتمم طلباء کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات تعمیر وغیرہ میں ہماری طرف سے زکوٰۃ اور صدقہ کی رقم وصول کر کے خرچ کرنے کی اجازت دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہےکہ  زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ؛ اس لیے  مدارس ومساجد کی تعمیر  وغیرہ پر زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی، باقی نفلی صدقات وعطیات تعمیراتی کاموں میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔لہذا  صورتِ  مسئولہ میں  داخلہ فارم میں وکالت نامہ کی شق  بڑھانے سے مہتمم یا اس کے نمائندہ کو  زکات اور صدقات کے فنڈ میں  شریعت  کی طرف  سے مقررہ مصارف کے علاوہ کسی اورمصرف میں شخصی تملیک کے بغیر خرچ کرنے کی اجازت نہیں  ہوسکتی،  اگر  مہتمم  طالب علم سے سوال میں مذکورہ ترتیب کے مطابق خرچ  کرنے کی وکالت حاصل کر بھی لے، تب بھی ان حیلوں سے زکات کی رقم  تملیکِ شخصی کے بغیر  مقررہ مصارف کے علاوہ کسی مصرف میں خرچ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔۔ ایسے حیلے پر مشتمل وکالت نامے  پر بے شمار فقہی اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور اس میں بہت سی وجوہِ فاسدہ پائی جاتی ہیں۔ 

تفصیل کے  لیے جواہر الفتاوی: «تملیکِ  زکات کے بارے میں حضرت رشید احمد گنگوہی (رحمہ اللہ) اور حضرت خلیل احمد سہارنپوری(رحمہ اللہ)  کی رائے» (1/ 53 تا 62)، اور   «مال زکات میں تملیکِ شرعی   ہر حال میں ضروری ہے»(2/ 441)،ط۔ اسلامی کتب خانہ کراچی،طبع:2011)  اور   جامعہ کی ویب سائٹ پر  موجودہ فتوی بعنوانِ  (مدرسہ انتظامیہ کا داخلہ کے وقت طلبہ اور ان کے سرپرستوں سے زکوۃ کی وصولی اور طلبہ پر خرچ کرنے کے وکالت نامہ پر دستخط لینا) ملاحظہ فرمائیں۔

فتاویٰ ہندیہ  میں ہے:

"لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١٨٨, ط: دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه نهر (و) لا إلى (ثمن ما) أي قن (يعتق) لعدم التمليك وهو الركن."

(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوٰۃ و العشر، ٣٤٥/٢، ط: سعید)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144508100118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں