بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈکیتی کی شرعی سزا کیا ہے؟


سوال

 ہمارے شہر میں ڈکیتی اور چھینا جھپٹی کی وارداتیں عام ہوتی جارہی ہیں اور دیکھا یہ گیا ہے کہ حکومتی ادارے امن و امان قائم کرنے میں بالکل ناکام ہوچکے ہیں،  بلکہ  اکثر جگہ تو  یہی ادارے ملوث بھی پاۓ  گئے ہیں،  جب عوام کے  ہاتھوں کوئی ڈاکو پکڑا جاتا ہے اور اس کو پولیس کے حوالے کیا جاۓ تو عام تاثر یہی ہے کہ وہ رشوت دے کر باآسانی چھوٹ جاتا ہے۔

عام طور پر عوام اپنی املاک دے دیتے ہیں،  لیکن اگر کوئی  مزاحمت کرے تو یہ ڈاکو قتل کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتے۔ عوام کا اعتبار حکومتی اداروں پر سے بالکل اُٹھ گیا ہے۔

1۔ سوال یہ ہے کہ اسلام میں ایسے شرپسند عناصر کے  لیے کیا سزا ہے؟

2۔ اگرچہ سزا دینا حکومت اور حکومتی اداروں کا کام ہے،  لیکن ایسی صورت میں جب کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے یہ ادارے مکمل طور پر  ناکام ہو چکے ہوں۔  بلکہ ایک حد تک ملوث بھی ہوں تو کیا  عوام بذاتِ  خود   وہ سزا نافذ کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟

3۔ ایسی صورت میں جب کہ ایک شخص کو لوٹا جارہا ہو اور وہ شخص خود یا عوام میں سے کوئی شخص اُس ڈاکو کو قتل کردے تو کیا وہ اس قتل کے سبب  گناہ گار ہوگا؟

4۔ اپنی املاک کو بچانے  کے لیے مزاحمت کے دوران اگر کوئی شخص مارا جاۓ تو اس کے  لیے کیا حکم ہے؟  کیا یہ خودکشی کے زمرے میں آئےگا؟

تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

1۔ کسی شخص کا مال ناحق طریقہ سے  خفیۃً لے لینا شرعی اصطلاح میں سرقہ (چوری) کہلاتا ہے۔ اگر یہی قبیح حرکت کھلم کھلا علی الاعلان اسلحہ کے زور پر کی جائے تو اسے فقہاء کرام قطع الطریق (وڈاکہ زنی) سے تعبیر کرتے ہیں۔

اسلامی آئینِ  حدود وتعزیرات  کی رو سے پہلے جرم (چوری) کی سزا مجرم کا دایاں ہاتھ کاٹنا ہے، جب کہ دوسرے جرم یعنی ڈاکہ زنی  کی صورت میں بحسبِ  شرائط  و تفصیل  دائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ البتہ ڈاکو اگر کسی کا مال چھیننےكے دوران صاحب مال کو قتل کردے تو اس صورت میں اس ڈاکوکی سزا قتل ہے اور اگر مال بھی چھینے اور صاحبِ  مال کو قتل بھی کردے اور  پھر ایسا ڈاکو پکڑا جائے تو  شریعت میں  اس کی سزا  سولی پر لٹکاکر نیزوں کے ذریعے مارکر قتل کر دیناہے، تاہم اگر صرف مال چھین کر بھاگ جائے  اور پھر بعد میں پکڑا جائے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اس ڈاکو کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)   میں ہے :

"(باب قطع الطريق) و هو السرقة الكبرى.

(من قصده) و لو في المصر ليلًا به يفتى (و هو معصوم على) شخص (معصوم) و لو ذميًّا، فلو على المستأمنين فلا حد (فأخذ قبل أخذ شيء وقتل) نفس (حبس) وهو المراد بالنفي في الآية: وظاهر أن المراد توزيع الأجزية على الأحوال كما تقرر في الأصول (بعد التعزير) لمباشرة منكر التخويف (حتى يتوب) لا بالقول بل بظهور سيما الصلحاء (أو يموت) (وإن أخذ مالا معصوما) بأن يكون لمسلم أو ذمي كما مر (وأصاب منه كلا نصاب قطع يده ورجله من خلاف إن كان صحيح الأطراف) لئلايفوت نفعه وهذه حالة ثانية. (وإن قتل) معصوما (ولم يأخذ) مالاً (قتل) وهذه حالة ثالثة (حدًّا) لا قصاصًا(ف) لذا (لا يعفوه ولي، ولا يشترط أن يكون) القتل (موجبا للقصاص) لوجوبه جزاء لمحاربته لله تعالى بمخالفة أمره وبهذا الحل يستغنى عن تقدير مضاف كما لايخفى.

 (و) الحالة الرابعة (إن قتل وأخذ) المال خير الإمام بين ستة أحوال: إن شاء (قطع) من خلاف (ثم قتل أو) قطع ثم (صلب) أو فعل الثلاثة (أو قتل) وصلب أو قتل فقط (وصلب فقط) كذا فصله الزيلعي ويصلب (حيًّا) في الأصح وكيفيته في الجوهرة (ويبعج) بطنه (برمح) تشهيرا له ويخضخضه به (حتى يموت ويترك ثلاثة أيام من موته) ، ثم يخلى بينه وبين أهله ليدفنوه و (لا أكثر منها) على الظاهر وعن الثاني يترك حتى يتقطع (وبعد إقامة الحد عليه لا يضمن ما فعل) من أخذ مال وقتل وجرح زيلعي (وتجري الأحكام) المذكورة (على الكل بمباشرة بعضهم) الأخذ و القتل و الإخافة.

(و) الحالة الخامسة: (إن انضم إلى الجرح أخذ قطع) من خلاف (وهدر جرحه) لعدم اجتماع قطع وضمان (وإن جرح فقط) أي لم يقتل ولم يأخذ نصابا. قال الزيلعي: ولو كان مع هذا الأخذ قتل فلا حد أيضا؛ لأن المقصود هنا المال وهي من الغرائب (أو قتل عمدا) وأخذ المال (فتاب) قبل مسكه، ومن تمام توبته رد المال ولو لم يرده قيل لا حد (أو كان منهم غير مكلف) أو أخرس (أو) كان (ذو رحم محرم من) أحد (المارة) أو شريك مفاوض (أو قطع بعض المارة على بعض أو قطع) شخص (الطريق ليلا أو نهارا في مصر أو بين مصرين) وعن الثاني إن قصده ليلا مطلقا أو نهارا بسلاح فهو قاطع، وعليه الفتوى بحر ودرر وأقره المصنف (فلا حد) جواب للمسائل الست.

(قوله: و هو معصوم) أي بالعصمة المؤبدة وهو المسلم أو الذمي قهستاني. والعصمة: الحفظ، والمراد عصمة دمه وماله بالإسلام أو عقد الذمة. وفي حاشية السيد أبو السعود: مفاده لو قطع الطريق مستأمن لا يحد، وبه صرح في شرح النقاية معللا بأنه لا يخاطب بالشرائع. وحكى في المحيط اختلاف المشايخ فيه (قوله: فلو على المستأمنين فلا حد) لكن يلزمه التعزير والحبس باعتبار إخافة الطريق وإخفاره ذمة المسلمين فتح. قال في الشرنبلالية: ويضمن المال لثبوت عصمة مال المستأمن حالا وإن لم يكن على التأبيد، ومحل عدم الحد بالقطع على المستأمن فيما إذا كان منفردا، أما إذا كان مع القافلة فإنه يحد ولا يصير شبهة، بخلاف اختلاط ذي الرحم بالقافلة كما في الفتح. اهـ. قلت: لكن لو لم يقع القتل والأخذ إلا في المستأمن فلا حد كما في الفتح أيضاً.

[تنبيه] قد علم من شروط قطع الطريق كونه ممن له قوة ومنعة، وكونه في دار العدل، ولو في المصر،و لو نهارًا إن كان بسلاح، وكون كل من القاطع والمقطوع عليه معصوما، ومنها كما يعلم مما يأتي كون القطاع كلهم أجانب لأصحاب الأموال، وكونهم عقلاء بالغين ناطقين، وأن يصيب كلا منهم نصاب تام من المال المأخوذ، وأن يؤخذوا قبل التوبة". 

(كتاب السرقة. باب قطع الطريق، ٤ / ١١٣ - ١١٧، ط: دار الفكر - بيروت)

2۔ حدود و قصاص کی تنفیذ حاکمِ  وقت یا اس کے نائب ( عدلیہ)  کی ذمہ داری ہے، عوام الناس بذاتِ  خود نہ ہی کسی پر حد قائم کرسکتے ہیں، اور نہ ہی بذاتِ  خود قصاص لے سکتے ہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(فصل):  وأما شرائط جوازاقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها ومنها ما يخص البعض دون البعض أما الذى يعم الحدود كلها فهو الامامة وهو أن يكون المقيم للحدوهوالامام أو من ولاه الامام و هذا عندنا".

(كتاب الحدود،  فصل في شرائط جواز إقامة الحدود،  ٧ / ٥٧،  ط: دار الكتب العلمية)

3۔ رہزن / ڈکیت کو ڈکیتی کے دوران اگر  صاحبِ  مال  قتل کردے، تو نہ  مالک گناہ گار ہوگا، اور نہ ہی قصاص یا دیت لازم ہوگی، اسی طرح سے اگر کوئی تیسرا شخص صاحب مال کی امداد کی خاطر ڈاکو سے الجھ پڑے یا ڈاکو کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائے، یا قتل کرڈالے تو شرعاً  وہ گناہ گار نہ ہوگا، اور نہ ہی قصاص یا دیت لازم ہوگی، تاہم شرط یہ ہے کہ ڈکیت کے قتل کے سوا  مظلوم کی حفاظت کی کوئی صورت باقی  نہ بچی ہو۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله -: (و من أشهر على المسلمين سيفا وجب قتله) ولا شيء بقتله لقوله عليه الصلاة والسلام: «من شهر على المسلمين سيفا فقد أبطل دمه»؛ ولأن دفع الضرر واجب فوجب عليهم قتله إذا لم يكن دفعه إلا به ولا يجب على القاتل شيء؛ لأنه صار باغيا بذلك وكذا إذا أشهر على رجل سلاحا فقتله أو قتله غيره دفعا عنه فلا يجب بقتله شيء لما بينا ولا يختلف بين أن يكون بالليل أو بالنهار في المصر أو خارج المصر؛ لأنه لا يلحقه الغوث بالليل ولا في خارج المصر، فكان له دفعه بالقتل بخلاف ما إذا كان في المصر نهارا وفي النوادر يغسل ويصلى عليه وعن الثاني يغسل ولا يصلى عليه."

( كتاب الجنايات، باب ما يوجب القصاص وما لا يوجبه، ٨ / ٣٤٤، ط: دار الكتاب الإسلامي)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(ويجوز أن يقاتل دون ماله وإن لم يبلغ نصابا ويقتل من يقاتله عليه) لإطلاق الحديث «من قتل دون ماله فهو شهيد» فتح.

(قوله: ويجوز أن يقاتل دون ماله) أي تحت ماله أو فوقه أو قدامه أو وراءه، فإن لفظ دون يأتي لمعان المناسب منها ما ذكرنا وقال بعضهم على ماله (قوله وإن لم يبلغ نصابا) أي نصاب السرقة وهو عشرة دراهم كما في منية المفتي. وفي التجنيس: دخل اللص دارا وأخرج المتاع فله أن يقاتله ما دام المتاع معه لقوله عليه الصلاة والسلام: «قاتل دون مالك» فإن رمى به ليس له أن يقتله؛ لأنه لا يتناوله الحديث."

( كتاب السرقة، باب قطع الطريق، ٤ / ١١٧، ط: دار الفكر)

4۔ اپنی املاک کی حفاظت کی خاطر اگر کوئی شخص قتل کردیا گیا تو ایسا مقتول شرعًا خودکشی کرنے والا شمار نہ ہوگا، بلکہ  از روئے حدیث وہ  شہید شمار ہوگا،  اسی طرح سے املاک کی حفاظت کے دوران حملہ آور رہزن، ڈاکو اگر  قتل کردیا جائے،  تو اس قتل کا قصاص شرعًا واجب نہ ہوگا، اور نہ ہی قاتل ( صاحب مال / یا اس کا معاون ) گناہ گار ہوگا، بشرطیکہ اس انتہائی اقدام کے علاوہ کوئی  چارہ نہ ہو، لیکن اگر ڈاکو کا شر چیخ وپکار یا معمولی مارپیٹ سے دور ہوجانے کا غالب گمان ہو توپھر قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے، ورنہ قصاص لازم  ہوگا۔

نیز  مالک نے  شور شرابا کیا جس کی وجہ سے ر ہزن / ڈکیت مال چھوڑ کے بھاگنے لگا، پھر  مالک نے  پکڑ  کر  اسے قتل کردیا تو اس صورت میں قصاص واجب ہوگا، اسی طرح سے  اگر ڈکیتی یا رہزنی  کے بعد مالک نے کسی اور  جگہ مذکورہ  رہزن / ڈکیت  کو دیکھا تو  اس اسے پکڑ کر اپنا مال بازیاب کرانے، اور اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کرنے کی تو اجازت ہوگی، تاہم  قتل  کرنے کی شرعًا اجازت نہیں ، اور اگر صاحب مال نے قتل کردیا تو مقتول کی دیت ادا کرنا شرعًا واجب ہوگا۔

سنن نسائی میں ہے:

"عن قابوس بن مخارق، عن أبيه قال: وسمعت سفيان الثوري يحدث بهذا الحديث قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: الرجل يأتيني فيريد مالي، قال: «ذكره بالله» قال: فإن لم يذكر؟ قال: «فاستعن عليه من حولك من المسلمين» قال: فإن لم يكن حولي أحد من المسلمين؟ قال: «فاستعن عليه بالسلطان» قال: فإن نأى السلطان عني؟ قال: «قاتل دون مالك حتى تكون من شهداء الآخرة، أو تمنع مالك."

( كتاب تحريم الدم، ما يفعل من تعرض لماله، ٧ / ١١٣، رقم الحديث: ٤٠٨١، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب)

ترجمہ:"ایک صحابی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:اے اللہ کے رسول ! اگر کوئی شخص مجھ سے میرا مال چھیننا چاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اللہ (کے خوف) کی نصیحت کر، عرض کیا: اگر وہ نہ قبول کرے؟ فرمایا: اپنے ارد گرد کے مسلمانوں سے مدد طلب کر، عرض کیا: اگر ارد گرد مسلمان نہ ہوں (یا وہ مدد سے عاجز ہوں؟ فرمایا: بادشاہ وقت (یا اس کے عملے سے) مدد طلب کر، عرض کیا: اگر وہ دور ہو؟  فرمایا: اپنے مال کی حفاظت کی خاطر اس سے قتال کرو تاکہ تم شہادت کا درجہ پالو یا مال بچاسکو"۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة قال: « جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، أرأيت إن جاء رجل يريد أخذ مالي؟ قال: فلا تعطه مالك، قال: أرأيت إن قاتلني؟ قال: قاتله، قال: أرأيت إن قتلني؟ قال: فأنت شهيد، قال: أرأيت إن قتلته؟ قال: هو في النار."

( كتاب الايمان، باب الدليل على أن من قصد أخذ مال غيره بغير حق كان القاصد مهدر الدم في حقه وإن قتل كان في النار وأن من قتل دون ماله فهو شهيد، ١ / ٨٧، رقم الحديث: ٢٢٥ ( ١٤٠ )، ط: دار الطباعة العامرة - تركيا)

ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اگر ایک شخص میرے پاس آکر مجھ سے میرا مال چھیننے کی کوشش کرے،( تو آپ اس میں کیا فرماتے ہیں)؟ فرمایا: اس کو اپنا مال نہ دو، عرض کیا: اگر وہ مجھ سے قتل وقتال کرنے لگے تو کیا کروں؟ فرمایا: تم بھی قتال کرو، عرض کیا: اگر وہ مجھے قتل کردے؟ فرمایا: تم شہید کے مرتبہ پر ہوگے، عرض کیا: اگر وہ مارا جائے فرمایا: وہ جہنم میں چلا جائے گا۔"

سنن نسائی میں ہے:

"٤٠٩٤ - أخبرنا عمرو بن علي قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي قال: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن أبيه، عن أبي عبيدة بن محمد، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، عن سعيد بن زيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من قاتل دون ماله فقتل فهو شهيد، ومن قاتل دون دمه فهو شهيد، ومن قاتل دون أهله فهو شهيد."

( كتاب تحريم الدم، من قاتل دون أهله، ٧ / ١١٦، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب)

ترجمہ:"حضرت سعید بن زید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کی خاطر لڑا، اور قتل کردیا گیا، وہ شہید ہے، اور جو شخص جان کی حفاظت کی خاطر لڑا، وہ شہید ہے، اور جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کی خاطر لڑا وہ شہید ہے۔"

 

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(ويجوز أن يقاتل دون ماله وإن لم يبلغ نصابا ويقتل من يقاتله عليه) لإطلاق الحديث «من قتل دون ماله فهو شهيد» فتح.

(قوله: ويجوز أن يقاتل دون ماله) أي تحت ماله أو فوقه أو قدامه أو وراءه، فإن لفظ دون يأتي لمعان المناسب منها ما ذكرنا وقال بعضهم على ماله (قوله وإن لم يبلغ نصابا) أي نصاب السرقة وهو عشرة دراهم كما في منية المفتي. وفي التجنيس: دخل اللص دارا وأخرج المتاع فله أن يقاتله ما دام المتاع معه لقوله عليه الصلاة والسلام: «قاتل دون مالك» فإن رمى به ليس له أن يقتله؛ لأنه لا يتناوله الحديث.

وفي البزازية وغيرها: رجل قتله رب الدار، فإن برهن أنه كابره فدمه هدر، وإلا فإن لم يكن المقتول معروفًا بالسرقة والشر قتل به قصاصًا، وإن كان منهما تجب الدية في ماله استحسانًا؛ لأن دلالة الحال أورثت شبهة في القصاص لا في المال.

و في الفتح: أخذ اللصوص متاع قوم فاستغاثوا بقوم فخرجوا في طلبهم، فإن كان أرباب المتاع معهم أو غابوا لكن يعرفون مكانهم ويقدرون على رد المتاع عليهم حل لهم قتال اللصوص، و إن كانوا لايعرفون مكانهم و لايقدرون على الرد لايحل، و تمامه فيه."

( كتاب السرقة، باب قطع الطريق، ٤ / ١١٧، ط: دار الفكر - بيروت)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و أما أنه لو صاح به یترك ما أخذہ ویذهب فلم یفعل هکذا، ولکن قتله کان علیه القصاص."

( کتاب الجنایات، الباب الثاني، ٦ / / ٧، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو أن لصوصًا أخذوا متاع قوم فاستغاثوا بقوم، و خرجوا في طلبهم إن كان أرباب المتاع معهم حل قتلهم، و كذا إذا غابوا و الخارجون يعرفون مكانهم و يقدرون على رد المتاع عليهم، و إن كانوا لايعرفون مكانهم و لايقدرون على الرد عليهم لايجوز لهم أن يقاتلوهم، ولو اقتتلوا مع قاطع فقتلوه لا شيء عليهم؛ لأنهم قتلوه لأجل مالهم فإن فر منهم إلى موضع لو تركوه لا يقدر على قطع الطريق عليهم فقتلوه كان عليهم الدية؛ لأنهم قتلوه لا لأجل مالهم، ولو فر رجل من القطاع فلحقوه، وقد ألقى نفسه إلى مكان لا يقدر معه على قطع الطريق فقتلوه كان عليهم الدية؛ لأن قتلهم إياه لا لأجل الخوف على الأموال، ويجوز للرجل أن يقاتل دون ماله، وإن لم يبلغ نصابا، ويقتل من يقاتله عليه، كذا في فتح القدير."

( كتاب السرقة، الباب الرابع في قطاع الطريق، ٢ / ١٨٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں