بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیجیٹل تصویر میں اور یوٹیوب کی کمائی میں جواز والے حضرات کے فتویٰ پر عمل کرنے کا حکم


سوال

حضرت جیسا کہ آپ کے دارالافتا کا فتویٰ ہے کہ ڈیجیٹل تصویر بھی حرام ہے جو موبائل وغیرہ سے کھینچی جاتی ہے،  لیکن  ایک ادارے کا فتویٰ ہے کہ ڈیجیٹل تصویر اصل تصویر کے زمرے میں نہیں آتی؛  لہذا ڈیجیٹل تصویر حرام نہیں ہے ، اسی طریقہ سے یوٹیوب کی ارننگ کا بھی مسئلہ ہے جس پر آپ کا فتویٰ ہے کہ یوٹیوب کی ارننگ حرام ہے،   جب کہ اس ادارے کا فتویٰ ہے کہ یوٹیوب کی ارننگ حلال ہے ۔

1) میرا سوال یہ ہے کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو میں نے سنا ہے کہ اس مسئلے کا حکم نرم ہو جاتا ہے تو کیا عام عوام کے لیے ان مسائل میں  جواز کی رائے والے ادارے کے فتوے پر عمل کرنا جائز ہوگا؟ کیا  اس کے فتوے پر عمل کر کے ڈیجیٹل تصویر کھینچنے کی اجازت ہوگی ؟

2)کیا  یوٹیوب پر جواز کی رائے رکھنے والے ادارے کے فتوے پر عمل کر کے یوٹیوب کی ارننگ کو حلال کہہ سکیں  گے ؟ براہ کرم وضاحت فرما دیں؛ کیوں کہ  وہ ادارہ بھی مستند دینی ادارہ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں تصویر سازی  کسی بھی شکل میں ہو، کسی بھی طریقے سے  ہو ، بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو، کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر بنائی جائے، حرام ہے، اس تنوع واختلاف سے تصویر سازی کے حکم میں کوئی فرق یانرمی نہیں آتی،لہذا کسی بھی جان دار کی تصویر کھینچنا ، بنانایا بنوانا ناجائز اور حرام ہے، خواہ  اس تصویر کشی کے  لیے کوئی بھی  آلہ استعمال کیا جائے،اہلِ علم و اہلِ فتوی کی بڑی تعداد کی تحقیق کے مطابق تصویر کے جواز وعدمِ جواز کے بارےمیں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل کی تقسیم شرعی نقطہ نظر سے ناقابلِ اعتبار ہے ۔لیکن  اگر اس مسئلے میں اہلِ علم کی آراء کا اختلاف معتبر مانا جائے تو  تب بھی جان دار کی ڈیجیٹل تصویر کے ناجائز ہونے کو ہی ترجیح حاصل ہوگی، اس لیے کہ جس مسئلے میں جائز و ناجائز کا اختلاف ہو، وہاں ترجیح حرمت کو حاصل ہوتی ہے، اس بنا پر عوام کے لیے ڈیجیٹل تصویر کے جواز  ہونے کے فتوے پر عمل کرنا درست نہیں ہے ، چاہے جس ادارے کا بھی ہو۔ 

2)یوٹیوب کی کمائی صرف جاندار کی تصویر کی وجہ سے حرام نہیں ہے ، بلکہ اس کے عدمِ  جواز کی وجوہات اس کے علاوہ بھی  ہیں، مثلاً   غیر شرعی  اشتہارات چلانا،  اس کے علاوہ  یوٹیوب چینل  کے ذریعے اگر آمدن مقصود  ہو تو اس سلسلے میں انتظامیہ سےجو  اجارے کا معاہدہ  کیا جاتاہے  وہ بھی  فاسد  ہے؛  کیوں اس میں شرعی تقاضے پورے نہیں  ہوتے  (مثلًا: اجرت کی جہالت)  اس بنا پر یوٹیوب کی کمائی   جائز نہیں ہوتی۔  تاہم اگر یوٹیوب  والے  وہ تمام خرابیاں دور  کردیں جو شرعًا ناجائز ہے تو  پھر اس کی کمائی جائز ہوسکتی ہے، بہر حال ناجائز ہونے کی صورت میں  عوام کے لیے کسی بھی ادارے کے جواز والے فتوی پر عمل کرنا درست نہیں ۔

درج ذیل لنک  میں فتویٰ ملاحظہ  کرسکتے ہیں:

غیر جاندار کی تصویر اپ لوڈ کرکے یوٹیوب پر کمائی کا حکم

1) مشکاۃ المصابیح  میں  ہے:

"وعن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أشد الناس عذاباً يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله."

(مشكاة المصابيح ، باب التصاویر،ج:2، ص:385، ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب  ان لوگوں کو ہوگا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔

(مظاہر حق جدید  ج:4 ، ص: 229  ،ط: دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "أشد الناس عذاباً عند الله المصورون."

(مشكاة المصابيح ، باب التصاویر،ج:2، ص:385، ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے“۔

(مظاہر حق جدید، ج: 4 ، ص: 230،   ط: دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

عن ابن عباس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: كل مصور  في النار يجعل له بكل صورة صورها نفسا فيعذبه في جهنم.

(مشكاة المصابيح، ج:2، ص: 385، باب التصاویر، ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ  میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے  ہوئے سنا کہ” ہر مصور دوزخ میں ڈالا جائے گا، اور اس کی بنائی  ہوئی ہر تصویر کے بدلے ایک شخص پیدا کیا جائے گا جو تصویر بنانے والے کو دوزخ میں عذاب دیتا رہے گا“۔

(مظاہر حق جدید،ج:4، ص:230،    ط: دارالاشاعت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و مايكره فيها، ج: 1، ص: 647، ط: سعيد)

المبسوط  للسرخسي میں ہے :

"فالأخذ بالاحتياط أولى لقوله صلى الله عليه وسلم :ما ‌اجتمع ‌الحلال، والحرام في شيء إلا وقد غلب الحرام الحلال."

(كتاب الصلوة، باب الوضوء والغسل، ج:1، ص:77، ط:دار المعرفة - بيروت)

2)فتاوی شامی میں ہے:

"لا يستحق ‌الربح إلا بإحدى ثلاث: بمال، أو عمل، أو تقبل..قوله: أو تقبل) عبارة الدرر أو ضمان."

(کتاب الشركة، مطلب شركة الوجوه، ج:4 ص:324، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال ابن مسعود صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر،  أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه."

(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 348، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں