بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دیون کی کتنی قسمیں ہیں اور وجوب زکوٰۃ کے سلسلے میں ہر ایک کا کیا حکم ہے؟


سوال

 دیون کی کتنی قسمیں ہیں اور وجوب زکوٰۃ کے سلسلے میں ہر ایک کا کیا حکم ہے؟

جواب

دیون کی تین قسمیں ہیں :

1. قوی 2. متوسط 3. ضعیف

جن کے احکام  مندرجہ ذیل ہیں:

دين قوی:

قوی یہ ہے کہ نقد روپیہ یا اشرفی یا سونا یا چاندی کسی کو قرض دیا یا تجارت کا سامان بیچا تھا اور اس کی قیمت باقی ہے،ا س کا حکم یہ ہے کہ وصول ہونے پر گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ واجب ہو گی،  بشرطیکہ قرض تنہا یا اور مال کے ساتھ جو پہلے سے اس کے پاس ہے مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے اور اگر یکمشت وصول نہ ہو تو جب اس میں سے نصاب کا پانچواں حصہ یعنی چالیس درہم وصول ہو جائے گا اس وقت ہر سال کا ایک درہم زکوٰۃ میں ادا کرنا واجب ہو گا ، اس سے پہلے نہیں اور اسی طرح باقی رقم میں سے ہر چالیس درہم کے وصول ہونے پر اس کی زکوٰۃ واجب ہوتی جائے گی،  اور گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی واجب ہو گی، اگر چالیس درہم سے کم پر قبضہ ہو تو اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہو گی،  اور اگر اس کے پاس پہلے سے اور رقم بقدر نصاب ہے تو وصول شدہ رقم خواہ چالیس درہم سے کم ہی ہو ، اس رقم میں ملا کر پہلی رقم کا سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی، اب موجودہ سال کا حساب وصول شدہ رقم کے سال سے نہیں ہو گا،  البتہ گزشتہ سالوں کا حساب قرضہ کے وقت سے ہو گا۔

دین متوسط: 

متوسط یہ ہے کہ قرضہ نقد نہیں دیا اور نہ ہی تجارت کا سامان بیچا بلکہ خانگی سامان بیچا اور اس کی قیمت وصول نہیں ہوئی پھر چند سال کے بعد وصول ہوئی تو اس قسم کے قرض کی بھی گزشتہ سب سالوں کی زکوٰۃ قرض وصول ہونے پر ادا کرنی واجب ہو گی اور اگر سارا ایک دفعہ میں وصول نہ ہو بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو تو جب تک بقدر نصاب (دو سو درہم) وصول نہ ہو جائے زکوٰۃ ادا کرنی واجب نہیں ، جب کم از کم نصاب کی مقدار یا اس سے زائد یا تمام رقم وصول ہو جائے،  تو تمام گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ حساب کر کے ادا کرنا واجب ہے ، اور اگر اس کے پاس پہلے سے اور مال بقدر نصاب موجود ہے ، تو وصول شدہ رقم خواہ کسی قدر بھی ہو،  اس پہلے مال میں ملا کر پہلے رقم کا سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی،  اور اب موجودہ سال کا حساب وصول شدہ رقم کے سال سے نہیں کیا جائے گا ، البتہ گزشتہ سالوں کا حساب قرضہ کے وقت سے ہی ہو گا۔

دین ضعیف:

ضعیف یہ ہے،  کہ وہ کسی مال کا بدلہ نہیں ہے ، یعنی نہ نقدی یا تجارت کے مال کا بدلہ ہے،  اور نہ مال تجارت کے علاوہ گھریلو سامان کا بدلہ ہے،  بلکہ یہ مہر ہے،  یا بدلہ خلع وغیرہ ہے ، اور چند سال کے بعد وصول ہوا ہے ، تو اس پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے،  بلکہ کم از کم بقدر نصاب یا اس سے زیادہ یا تمام قرضہ وصول ہونے کے بعد سے اس رقم کا سال شروع ہو گا،  اور پھر سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو گی لیکن اگر پہلے سے اور رقم بھی بقدر نصاب موجود ہو تو وصول شدہ رقم اس میں ملا کر پہلی رقم کا سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا وكيع، عن موسى بن عبيدة، عن نافع، عن ابن عمر، قال: «زكوا زكاة أموالكم حولا إلى حول، وما كان من دين ثقة فزكه، وإن كان من دين مظنون فلا زكاة فيه حتى يقضيه صاحبه»."

(كتاب الزكوة،‌‌زكوة الديون، ج:2، ص:389،ط:دار التاج)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(و) اعلم ‌أن ‌الديون ‌عند ‌الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة)."

(كتاب الزكوة،باب زكوة المال، ج:2، ص:305، ط:سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"‌ففي ‌القوي ‌تجب الزكاة إذا حال الحول ويتراخى الأداء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم وكذا فيما زاد فبحسابه، وفي المتوسط لا تجب ما لم يقبض نصابا وتعتبر لما مضى من الحول في صحيح الرواية، وفي الضعيف لا تجب ما لم يقبض نصابا ويحول الحول بعد القبض عليه، وثمن السائمة كثمن عبد الخدمة."

(کتاب الزکوة،ج:2، ص:167،  ط: دار الفکر) 

 بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة، وقال زفر: " اليد ليست بشرط " وهو قول الشافعي فلا تجب الزكاة في ‌المال ‌الضمار عندنا خلافا لهما.
وتفسير مال الضمار هو كل مال غير مقدور الانتفاع به مع قيام أصل الملك كالعبد الآبق والضال، والمال المفقود، والمال الساقط في البحر، والمال الذي أخذه السلطان مصادرة، والدين المجحود إذا لم يكن للمالك بينة وحال الحول ثم صار له بينة بأن أقر عند الناس، والمال المدفون في الصحراء إذا خفي على المالك مكانه فإن كان مدفونا في البيت تجب فيه الزكاة بالإجماع"

(كتاب الزكاة، الشرائط التي ترجع الى المال، ج:2، ص:9، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"فلا زكاة على من لم يتمكن منها في ماله كمال ‌الضمار، وهو في اللغة الغائب الذي لا يرجى فإذا رجي فليس بضمار، وأصله الإضمار، وهو التغييب والإخفاء، ومنه أضمر في قلبه شيئا، وفي الشرع كل مال غير مقدور الانتفاع به مع قيام أصل الملك."

(كتاب الزكاة، باب شروط الزكاة، ج:2، ص:222، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌ويشترط ‌أن ‌يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو يد نائبه فإن لم يتمكن من الاستنماء فلا زكاة عليه وذلك مثل مال الضمار كذا في التبيين وهو كل ما بقي أصله في ملكه ولكن زال عن يده زوالا لا يرجى عوده في الغالب كذا في المحيط."

(كتاب الزكوة،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج:1، ص:174، ط:رشيدية)

 فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

 (قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين."

(کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ج:2، ص:305،  ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں